- فتوی نمبر: 31-192
- تاریخ: 08 ستمبر 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > کفار اور گمراہ لوگوں سے معاملات
استفتاء
دبئی میں ہمارا ریسٹورنٹ ہے وہاں پر Pranکمپنی(جو قادیانیوں کی ہے) والے ہمارے ہوٹل میں سامان دیتے ہیں لیکن جو سامان ہے مثلا تیل اور گھی وہ کسی اور کمپنی کا ہے یہ لوگ صرف سپلائی کرتے ہیں۔آیا یہ لینا ٹھیک ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
قادیانیوں سے حتی الامکان لین دین کرنے سے احتراز کرنا ضروری ہے۔
امداد المفتین (1/850) میں ہے:
سوال :مرزائیوں کے دونوں فریق قادیانی و لاہوری بالیقین مرتد خارج عن الاسلام ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو مرتد کا کیا حکم ہے؟ مرتدین کے ساتھ اختلاط و برتاؤ کرنا عوام کو ان کی باتیں سننا جلسوں میں شریک ہونا ان سے مناکحت کرنا، ان کی شادی و غمی میں شریک ہونا، ان کے ساتھ کھانا پینا، تجارتی تعلقات قائم رکھنا ،ان کو ملازم رکھنا یہ امور جائز ہیں یا نہیں؟
جواب :مرزا غلام احمد کا کافر و مرتد ہونا ان کے اقوال و کلمات غیر محصورہ کا غیر محتمل للتاویل ہونا اظہر من الشمس ہو چکا ہے اسی لیے جمہور علماء امت ان کی تکفیرپر متفق ہیں اس کی مفصل تحقیق کرنا ہو تو مستقل رسائل مثل اشد العذاب مصنف مولانا مرتضی حسن صاحب اور القول الصحیح فی مكائد المسیح مصنف مولانا محمد سہول صاحب اور مطبوعہ فتاوی علمائے ہند دربارہ تکفیر قادیانی جس میں ہر جگہ وہ صوبہ کے علماء کے سیکڑوں دستخط تصدیق ہیں ملاحظہ فرمائے جائیں پھر مرزائیوں کے دونوں فرقے قادیانی اور لاہوری اتنی بات پر متفق ہیں کہ وہ اعلی درجہ کا مسلمان بلکہ مجدد محدث اور مسیح موعود تھے وہ ظاہر ہے کہ کسی کافر مرتد کے متعلق بعد اس کے عقائد معلوم ہو جانے کے ایسا عقیدہ رکھنا خود کفر و ارتداد ہے اس لیے بلاشبہ دونوں فرقے کافر و مرتد ہیں اور اب تو لاہوریوں نے جو تحریف قرآن اور انکار ضروریات دین کا خاص طور پر بیڑا اٹھایا ہے اس کے سبب اب وہ اپنے کفر و ارتداد میں مرزا صاحب کے تابع ہونے سے مستغنی ہو کر خود بالذات ارتداد کے علمدار ہیں اس لیے دونوں فریق سے عام مسلمانوں کا اختلاط اور ان کے باتیں سننا جلسوں میں ان کو شریک کرنا یا خود ان کے جلسوں میں شریک ہونا شادی و غمی اور کھانے پینے میں ان کو شریک کرنا سخت گناہ ہے اور مناکحت قطعا حرام ہے اور جو نکاح پڑھ بھی دیا جائے تو نکاح منعقد نہیں ہوتا بلکہ اگر بعد انعقاد نکاح مرزائی ہو جائے تو نکاح فورا منسوخ ہو جاتا ہے البتہ تجارتی تعلقات اور ملازمت میں رہنا یا ملازم رکھنا بعض صورتوں میں جائز ہے بعض میں وہ بھی ناجائز ہے اس لیے بلا ضرورت شدیدہ اس سے بھی احتراز ضروری ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved