- فتوی نمبر: 30-333
- تاریخ: 17 جون 2023
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
ہم نے مسجد کے قالینو ں کے لیے چندہ جمع کیا تھا تو جمع شدہ چندہ سے ضرورت کی تمام قالینیں خرید لی گئیں، لیکن چندہ کی رقم بچ گئی۔ قالینوں سے چونکہ سمیل (بدبو)آرہی تھی تو ہم نے بقیہ چندے کی رقم سے خوشبو والے لیمپ خرید لیے اور مسجد میں دیواروں کے ساتھ نصب کردیئے۔ چندہ دینے والے کچھ نمازی ہیں اور کچھ باہر کے ہیں ، جو نمازی ہیں انہیں تو معلوم ہے البتہ جو چندہ دینے والے باہر کے ہیں ان سے اجازت لینا ممکن نہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ قالینوں کی مد میں جمع شدہ چندہ سے خوشبو والے لیمپ خریدنا کیسا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ مسجد کی کمیٹی نے قالین خریدنے کے بعد بچ جانے والی رقم کو مسجد ہی کے مصرف میں استعمال کیا ہے اگرچہ چندہ دینے والوں سے اجازت نہیں لی لیکن عموما مسجد کی کمیٹی کو مسجد کی ضروریات میں چندہ کی رقم کو خرچ کرنے کی اجازت دلالتاً ہوتی ہے ، لہذا بچ جانے والی رقم سے مسجد کے لیے خوشبو والے لیمپ خرید کر مسجد میں لگانا جائز ہے۔
فتاوی تاتارخانیہ( 8/177) میں ہے:
"سئل أبو نصر عن رجل جمع مال الناس علي أان ينفقه في بناء المسجد فربما يقع في يده من تلك الدراهم فأنفقها في حوائجه ثم يرد بدلها في نفقة المسجد من ماله أيسع له ذلك ؟ قال:لا يسعه أن يستعمل من ذلك في حاجة نفسه فان عرف مالكه رد عليه وسأله تجديد الإذن فيه وإان لم يعرف إستأذن الحاكم فيما أستعمل وضمن.”
فتاوی شامی(4/445) میں ہے:
"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة، وصرح الأصوليون بأن العرف يصلح مخصصًا.”
امدادالفتاوی(2/560) میں ہے :
سوال :چندہ کے احکام وقف کے ہونگے یا مہتمم تنخواہ مقررہ سے زائد بطور انعام وغیرہ کے دے سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب:یہ وقف نہیں ،معطیین کا مملوک ہے اگر اہل چندہ صراحۃ یا دلالۃ انعام دینے پر رضامند ہوں درست ہے ورنہ درست نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved