• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قانونی تحفظ کی خاطر عدالت سے نکاح فسخ کرنا

استفتاء

میری عزیزہ بچی کا نکاح میری مارکیٹ کے ایک خوشحال فیملی کے غیر مقلد لڑکے سے ہوا، لڑکی ایک بہت غریب اور مالی وسائل سے محروم والد کے زیر سایہ تھی، لڑکی کی والدہ بعد شادی فوت ہو چکی ہے ہے، لڑکے کی متعدد مینگنیاں ٹوٹ چکی تھی، لڑکے والوں نے غریب والدین کو بہلا پھسلا کر بہت عجلت میں شادی کر دی، رخصتی کے فوراً بعد لڑکے کی والدہ نے اپنے بیٹے کو لڑکی کی غربت اور جہیز نہ لانے پر ورغلانا شروع کر دیا اور بے بنیاد الزامات امور خانہ داری کے سلسلے میں لڑکی پر عائد کرنے شروع کیے، نتیجہ میں لڑکے نے لڑکی پر بے تحاشہ تشدد کرنا شروع کر دیا، بیان کیا لڑکی نے انہیں دنوں میں مجھے طلاق دی، یہ الفاظ بولے تھے کہ "میں نے  تمہیں طلاق دی”۔ ایک طلاق کے بعد میں نے لڑکے کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا ایسا مت کہو وہ رک گیا، بعد ازاں ہماری صلح بھی  ہو گئی، کچھ دن بعد میں اپنے والد کے گھر آ گئی تب اس نے مجھے فون پر پھر ایک طلاق دی الفاظ یہ تھے کہ "میں نے تمہیں طلاق دی”۔ میرا جہیز کا سامان اور حق مہر میرے والد کے گھر بھیج دیا، میرے والد نے معاملات سلجھانے کی نیت سے حق مہر واپس لڑکے والوں کو بھیج دیا، اور معززین کے درمیان معاملہ حل کرنے کے لیے پیش کیا، معززین نے لڑکے کے سر پرست کو بلوایا، یاد رہے کہ مذکورہ سرپرست کی مرضی اور حکم کے بغیر ان کی فیملی میں کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا، اس شخص نے بیان دیا کہ ہم اپنی فقہ کے مطابق ایک طلاق دیں یا 10 یہ لڑکی فارغ ہو چکی ہے۔ سوال کیا کہ یہ لڑکی ابتدائی ایام حمل  سے ہے اور لڑکی والوں کا کہنا ہے کہ ہم اس کی صفائی کرا دیتے ہیں۔ جواب ملا کہ نہ ہمارا دعویٰ نہ تصدیق جو دل چاہے کرو، ہمیں کوئی غرض نہیں، بات ختم ہو گئی، کچھ عرصہ بعد پھر رابطہ کیا اور سرپرست سے کہا کہ اس معاملے کو نمٹاؤ اور لڑکی پر ظلم نہ کرو، جواب تحریری آیا ہم نے جو کام کیا ہے اللہ اور رسول کے احکام کے مطابق کیا ہے، یہ رابطہ تحریری شکل میں تھا اور مقصد حق مہر کی ادائیگی اور طلاق کی دستاویز بضرورت قانونی تقاضوں کا پورا کیا جانا ہے۔ (ہمراہ لف ہے)

حمل جب تقریباً چھ ماہ ہو چکا تھا لڑکے نے پانچ ہزار روپے ماہانہ دوران حمل تکالیف علاج و معالجہ کی مد میں بھیجنے شروع کیے، یہ رقم ایک غیر متعلقہ شخص کے ذریعے موصول ہوئی، لڑکے نے زچگی کے اخراجات برداشت کیے۔ دوسری طلاق دینے کے وقت سے لے کر بچے کی پیدائش تک لڑکے نے اپنی طلاق سے رجوع وغیرہ نہیں کیا۔ جب بچے کی عمر تقریباً 50 ایام ہوئی، لڑکا اپنی سسرال آیا کہ بچہ مجھے دو، میں دو گھنٹے کے بعد واپس لے آؤں گا۔ لڑکی نے مطالبہ کیا کہ بچہ لے جا رہے ہو مجھے بھی لے چلو، جواب ملا کہ میرا تیرا کیا واسطہ، تجھے کیوں لے کر چلوں اور اگر تو نے چلنا ہے تو سن میں دوسری شادی کروں گا، تجھے علیحدہ گھر میں رکھوں گا اور خود اپنی ماں کے ساتھ رہوں گا، اگر یہ شرط منظور ہے تو تجھے لے جاؤں گا۔ (لڑکے کے حالات قطعاً اس قابل نہیں کہ وہ یہ اخراجات پورے کر سکے)۔

جناب محترم! اس تمام عرصہ ایک سال کے دوران لڑکے کے خاندان میں سے کسی فرد نے رابطہ نہ کیا ہے، حتیٰ کہ دوران زچگی ہسپتال وغیرہ کسی بڑے بچے یا لڑکے کی والدہ، بھاوج، نند وغیرہ نے کوئی رابطہ کیا۔ یہ کشیدگی اور اظہار نفرت کا کھلا اظہار ہے، اب ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ بچہ ہمارا ہے اور ہم لیں گے، بچہ اور اس کی ماں کی بطور آیا ان کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

نوٹ: لڑکا زبانی طور سے کئی اشخاص کے سامنے طلاق دینے کا اقرار کر چکا ہے، لیکن تحریری طلاق باضابطہ نہیں دے رہا، شاید اس لیے کہ وہ لڑکی کو لٹکا کر رکھنا چاہتا ہے، کہ یہ آگے قانونی طور سے نکاح نہ کر سکے۔

ان حالات میں فتویٰ در کار ہے:

1۔ طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ اگر طلاق واقع نہیں ہوئی تو کیا لڑکی خلع کا دعویٰ کرے۔

2۔ لڑکے نے طلاق کے کاغذات دیے نہ حق مہر اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

3۔ اتنے کشیدہ ماحول میں لڑکی  کو بھیجنا درست ہے یا نہیں؟ جبکہ لڑکی کہتی ہے کہ میں کسی بھی حال نہیں جاؤں گی، شادی سے پہلے لڑکی کی صحت بہت اچھی تھی، ان لوگوں کے ہاں رہ کر لڑکی کی صحت بہت گر چکی ہے، اور قابل رحم ہے۔

4۔ لڑکا تشدد پسند ہے، کئی دوسرے واقعات سے تصدیق ہو چکی ہے، اندیشہ ہے کہ بھیجنے کے بعد اپنی عادت سے باز نہ آئے گا۔

5۔ لڑکے کی والدہ طلاق یافتہ ہے اور  اولاد کو بہو کے خلاف ورغلانہ انتقامی جذبے کی تسکین ہے، حالات بگاڑنے کی تمام تر ذمہ داری اسی پر ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہوئی ہیں، کیونکہ خاوند نے ایک طلاق پہلے دی جس سے رجوع کر لیا، دوسری طلاق

دینے کے بعد رجوع نہیں کیا اور عدت جو کہ مذکورہ صورت میں وضع حمل تھی گذر گئی، عدت گذرنے کی وجہ سے وہ رجعی طلاق بائنہ ہو گئی، اس لیے پہلا نکاح ختم ہو گیا ہے اور چونکہ عدت بھی گذر گئی ہے اس لیے لڑکی آزاد ہے، اگر وہ چاہے تو دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے، البتہ چونکہ لڑکے نے قانونی طریقے سے طلاق نہیں دی اور اندیشہ ہے کہ وہ نئے نکاح میں رکاوٹ ڈالے اس لیے بہتر یہ ہے کہ لڑکی اپنے قانونی تحفظ کے لیے عدالت سے نکاح فسخ کرا لے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved