- فتوی نمبر: 34-39
- تاریخ: 15 دسمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > ہبہ و ہدیہ
استفتاء
ایک خاتون کی ہمارے محلے میں ایک بلڈنگ تھی۔ اس کے تین بیٹے تھے۔ مسئلے کو سمجھنے کے لیے ان بیٹوں کے نام لکھ رہا ہوں۔ بڑے بیٹے کا نام زید، اس سے چھوٹے بیٹے کا نام خالد، اور اس سے چھوٹے بیٹے کا نام بکر تھا۔ ماں اپنے بڑے بیٹے زید کے ساتھ نیچے گراؤنڈ فلور پر رہتی تھی ، گراؤنڈ فلور پر دو کمرے تھےاور بکر اور خالد کا تیسری منزل پر ایک ایک کمرہ تھا، جن میں دونوں کی رہائش تھی۔
1977 میں خالد کا انتقال ہو گیا۔ اس کے ورثاء میں اس کی ماں جو اس وقت حیات تھی، اس کی بیوی اور اس کی ایک بچی تھی۔ خالد کے انتقال کے بعد بچی اور اس کی بیوہ اسی ایک کمرے میں رہتے رہے جس میں خالد رہتا تھا تاہم زیادہ تر یہ بچی اور اس کی ماں اپنی نانی کے گھر( جو خالد کا سسرال تھا) جا کر رہتی تھیں جس کی وجہ سے خالد کے حصے کا مذکورہ بالا کمرہ اکثر خالی رہتا تھا۔ اس کمرے کو خالد کی بیوہ کبھی سسرال والوں کے اور کبھی اپنے بھانجے وغیرہ کے استعمال میں رکھتی تھی۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ خالد کی جو اکلوتی بیٹی تھی اس کا بھی 1991 میں انتقال ہو گیا۔ اس وقت وہ شادی شدہ تھی اور ان کی ایک بچی بھی تھی، یعنی خالد کی نواسی۔ اب خالد کی بیوہ اور اس کی نواسی اس دنیا میں موجود تھیں ۔ 2019 میں خالد کی بیوہ کا بھی انتقال ہو گیا۔ خالد کی بیوہ نے اپنے دیور بکر کو اس کی ضرورت کے وقت 2016 میں اپنے حصے کا کمرہ کرائے پر دے دیا تھا۔ چنانچہ بکر 2024 تک باقاعدہ اُس کمرے کا کرایہ خالد کی نواسی کو ادا کرتا رہا۔ اب بکر کا کہنا یہ ہے کہ میرے بھائی خالد کا انتقال ہو گیا، اس کی بیوہ کا بھی انتقال ہو گیا اور اس کی بیٹی کا بھی انتقال ہو گیا لہٰذا اب اس گھر پر اس کی نواسی کا کوئی حق نہیں ہے تو شریعت کی رو سے آپ اس مسئلے کا حل بتائیں کہ خالد کی نواسی کا اُس کمرے پر کوئی حق ہے یا نہیں؟
اس وقت ماں کی بلڈنگ میں زید کے پاس تین کمرے ہیں ایک وہ جس میں وہ اپنی ماں کی زندگی میں رہتا تھا اور ایک ماں والا اور ایک کمرہ وہ جو زید کے بیٹوں نے اپنی ضرورت کے لیے کمرہ اوپر بنایا۔ بکر نے بھی اپنی ضرورت کے لیے ایک کمرہ اوپر بنایا ، لہذا بکر کے پاس اپنے دو کمرے ہیں اور ایک خالد کے کمرے پر قبضہ کیا ہوا ہے تو بکر کے پاس بھی تین کمرے ہوگئے۔ اب خالد کے ورثاء کے پاس کوئی چیز نہیں ہے۔ جو ایک کمرہ تھا اس پر بکر نے قبضہ کر کے کہہ دیا کہ یہ میرے بھائی کا ہے، اب ان کی نواسی کا اس میں کوئی حصہ نہیں تو براہ کرم آپ شریعت کی رو سے ہماری رہنمائی فرمائیں۔
وضاحت مطلوب ہے:1۔ ماں کو اس بلڈنگ کی ملکیت کیسے ملی؟2۔ کیا ماں نے اپنی حیات میں بلڈنگ کے مذکورہ حصوں کو اپنے بیٹوں کو ہبہ کردیا تھا اور اس کا ہبہ نامہ یا رجسٹری موجود ہے؟3۔ ماں کا انتقال کب ہوا ؟4۔ کیا زید اور بکر حیات ہیں؟ اگر فوت ہو گئے ہیں تو کب؟ اور ان کے ورثاء میں سے کون کون حیات ہیں؟
جواب وضاحت : 1۔ماں کو اس بلڈنگ کی ملکیت اس طرح ملی کہ جب پاکستان بنا تو ہماری ایک جماعت کی کالونی بنی جس میں کم آمدنی والے لوگوں کو 30 گز کے پلاٹ دیے گئے ماں کو اس بلڈنگ کی ملکیت اس طرح ملی۔2۔ماں نے کوئی ہبہ نہیں کیا نہ ہی ان کے نام پر کوئی رجسٹری کروائی۔ماں کے انتقال کے بعد زید اور بکر نے مزید ایک ایک کمرہ اپنی ضرورت کے اعتبار سے بنا دیا جس کی تفصیل اوپر سوال میں لکھ دی گئی ہے۔ماں کے انتقال کے بعد جو شرعی اعتبار سے ترکے کی تقسیم ہونی تھی وہ ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔3۔ماں کا انتقال 1988 میں ہوا۔4۔ زید کا انتقال 1990 میں ہوا اس وقت زید کے ورثاء میں ان کی اہلیہ، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جبکہ بکر اس وقت حیات ہے۔
مزید وضاحت مطلوب ہے: 1۔ کیا اس سوال سے تمام فریقوں کو اتفاق ہے؟ 2۔خاص طور پر نواسی کا مؤقف کیا ہے؟ 3۔سوال کس کی طرف سے ہے؟ 5۔کیا سب ورثاء اب شرعی اعتبار سے تقسیم پر راضی ہیں؟ 6۔والدہ نے کبھی زبانی بھی ہدیہ نہیں کیا تھا؟ 7۔ خالد کی بیوہ نے جو کمرہ کرایہ پر دیا تھا اس کا کرایہ نامہ بھیج دیں۔
جواب وضاحت: یہ سوال نواسی نے کیا ہے اور نواسی یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ شریعت کی رو سے میرا حصہ ہے یا نہیں؟ باقی جو ورثاء ہیں ان کے پاس اپنے حصے سے زیادہ ہے یا حصہ ہے مسئلہ تو صرف اس گھر کا ہے باقی آپس میں کسی کا کوئی مسئلہ نہیں۔والدہ اپنے بچوں کو اپنی بلڈنگ میں رہتا ہوا جس طرح دیکھ رہی تھی اور اس پر مطمئن تھی تو یہ خود ان کی رضامندی کی علامت تھی کہ میرے مرحوم بیٹے کی بیوہ اور اس کی بچی بھی اپنے پاس ایک مکان کا قبضہ رکھتی ہے۔
کرایہ نامہ منسلک ہےاور خالد کی بیوہ نے اخبار کے ذریعے اپنی نواسی کو اس گھر کا حق یا ملکیت دے دی تھی وہ بھی ساتھ منسلک ہے ۔
کرایہ نامہ کی ابتدائی عبارت:
یہ معاہدہ کرایہ داری آج مؤرخہ……… کراچی میں فریق اول اور اور فریق دوئم کے مابین طے پایا گیا۔
فریق اول فاطمہ زوجہ خالد ، ****** حامل شاختی کارڈ …….. ساکن مکان نمبر**********کراچی (مالک جائداد کہلائے گا ۔)
اور
فریق دوم بکر ***** حامل شناختی کارڈ نمبر ۔۔۔۔ ساکن مکان نمبر**********کراچی (کرایہ دار کہلائے گا ۔)
متعلقہ جائیداد: فاطمہ اپنا مکان بکر کو تین سال کے لیے کرائے پر دے رہی ہیں۔
روزنامہ نوائے وقت کراچی اخبار کی عبارت:
میں فاطمہ زوجہ خالد ****ساکن ************کراچی حسب ذیل اقرار کرتی ہوں کہ میں فلیٹ نمبر******کی مالکن ہوں۔ میں اپنے اس فلیٹ کو اپنی نواسی خدیجہ زوجہ عمر کو گفٹ کررہی ہوں۔ اگر کسی شخص، اشخاص یا ادارے کو اعتراض ہوگا تو سات دن کے اندر مجھ سے رابطہ کرسکتا ہے اس کے بعد کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔ المشتہر: فاطمہ زوجہ خالد ۔ ساکن***********کراچی
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں وہ کمرہ خالد کی نواسی کی ملکیت شمار ہوگا اور بکر کا اس پر قبضہ کرنا درست نہیں۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں چونکہ 1977 سے پہلے وہ کمرہ خالد کے پاس تھا اور اس کی وفات کے بعد اس کی بیوہ کے قبضے میں رہا جس پر خالد کی ماں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ نیز دیگر ورثاء مثلاً بکر جو اب حیات ہے وہ بھی اسے اپنے بھائی کا تسلیم کرتا ہے یہ سب قرائن اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ خالد کی ماں نے وہ حصہ خالد کو ہدیہ کردیا تھا۔ پھر خالد کی وفات کے بعد وہ حصہ خالد کی بیوہ کے قبضے میں رہا جس پر دیگر ورثاء نے نہ اعتراض کیا اور نہ اس میں وراثت کا دعویٰ کیا اور بکر نے اس بیوہ سے وہ پورا حصہ کرایہ پر لیا تو اس میں اس بیوہ کو ہی اس کا مکمل مالک تسلیم کیا گیا اسی طرح بیوہ نے جب وہ حصہ اپنا ملکیتی ظاہر کرکے اخبار کے ذریعے اپنی نواسی کو ہدیہ کیا تو کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا یہ سب قرائن اس پر دلالت کرتے ہیں کہ خالد کی وفات کے بعد اس حصہ میں جن دیگر ورثاء کا حصہ بنتا تھا انہوں نے اپنا حصہ اس بیوہ کو ہبہ کردیا اور وہ حصہ مکمل طور پر بیوہ کا بن گیا جس کو بیوہ نے اپنی زندگی میں نواسی کے نام کردیا تھا لہٰذا اب وہ نواسی کا شمار ہوگا۔
شامی (5/ 697) میں ہے:
«ولو دفع إلى ابنه مالا فتصرف فيه الابن يكون للابن إذا دلت دلالة على التمليك اهـ»
شامی (5/ 688) میں ہے:
(قَوْلُهُ: هُوَ الْإِيجَابُ) وَفِي خِزَانَةِ الْفَتَاوَى: إذَا دَفَعَ لِابْنِهِ مَالًا فَتَصَرَّفَ فِيهِ الِابْنُ يَكُونُ لِلْأَبِ إلَّا إذَا دَلَّتْ دَلَالَةُ التَّمْلِيك «قلت: فقد أفاد أن التلفظ بالإيجاب والقبول لا يشترط، بل تكفي القرائن الدالة على التمليك كمن دفع لفقير شيئا وقبضه، ولم يتلفظ واحد منهما بشيء، وكذا يقع في الهدايا ونحوها فاحفظه»
امداد الفتاوی جدید(8/28) میں ہے:
سوال: زید نے بلا تصریح واعلان شرع ودین کے کسی قدر روپیہ عمرو عم حقیقی اپنے کو دیا، کہ ایک نشستگاہ اندر زمین اپنی کے بنالو، عمرو نے اس روپے سے اپنی زمین مملوکہ میں اپنی خشت سے ایک مکان بنالیا۔ اب زید وارثان عمرو سے بعد وفاتِ عمرو طالب اس زر کا ہے جومزدوری مزدوران ومعماران میں صرف ہوا ہے پس عند اللہ وعند الرسول استرداد اس روپیہ کا زید کو وارثانِ عمرو سے آتا ہے یا نہیں؟
الجواب:صورت مسئولہ میں زید نے جو عمرو کو روپیہ دیا ہے عند الشرع ہبہ ہے، اگرچہ کوئی تصریح نہیں مگر ظاہراً قرینہ ہبہ پر دلالت کرتا ہے اور ہبہ میں قرینہ بھی تملیک کے لئے کافی ہے۔قلت: فقد أفاد أن التلفظ بالإیجاب والقبول لا یشترط، بل تکفی القرائن الدالة علی التملیک کمن دفع لفقیر شیئاً وقبضه، ولم یتلفظ واحد منهما بشيء اور جب ہبہ متحقق ہوگیا اور عمرو وفات پا چکا ہے اب زید کو وارثانِ عمرو سے کچھ دعویٰ نہیں پہنچتا، اور استرداد اس کا ہرگزجائز نہیں ، کیونکہ موت احد المتعاقدین مانع رجوع ہبہ ہے۔
امداد الفتاوی جدید(8/29) میں ہے:
سوال: عمرو زید ہر دو ایک مکان مشترک میں رہتے تھے۔ لیکن قبضہ دار مسکن ہر فریق کا جداگانہ طور پر تھا، حصّہ عمرو باعلان نصفی مکان بحالتِ بغاوت حاکم وقت نیلام ہوگیا زید نے بوقت نیلام روپیہ اس کے نیلام کا عمرو کو بلا تصریح کسی امر کے کہ وہ چچا اس کا حقیقی بھی تھا دیا، کہ وہ نیلام خرید کرلے، عمرو نے وہ مکان اپنے نام پر خرید کر لیا اور تاحیات عمرو کے قبض و تصرف میں رہا اور بعد وفات عمرو اس کے وارثان کے اور اس قسم کے تبرعات زید عمرو کے ساتھ اکثر کرتا رہا۔ اب زید وارثانِ عمرو سے دعویٰ اس امر کا کرتا ہے کہ مکان میرے روپیہ سے خرید ہے، شرعاً یہ دعویٰ زید کا جائز ہے یا ناجائز؟ اور استرداد اس روپیہ کا زید کو پہنچتا ہے یا نہیں ؟
الجواب: صورت مسئولہ میں زید نے جو روپیہ عمرو کو واسطے خرید نے نیلام کے دیا، اور عمرو نے اپنے نام پر خریدا۔ اورقبضہ میں عمرو ہی کے رہا۔ پس یہ روپیہ دینا ہبہ ہے اگر چہ تصریح نہیں کی، مگر قرائن ظاہرہ ہبہ پر دلالت کرتے ہیں اور وہ ملکیت عمرو کی ہے، اور جب عمرو مرگیا اب رجوع ہبہ کا نہیں ہوسکتا ۔
فتاویٰ مفتی محمود (9/294) میں ہے:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہمارے والد کو رقم کی ضرورت ہوئی اس نے ہماری والدہ کو کہا کہ اپنا کھٹمالہ طلائی رہن کر کے مجھے رقم نکلو ا دو کھٹمالہ طلائی جو ہماری والدہ کی اپنی ملکیت تھا ہماری والدہ نے کھٹمالہ طلائی مذکورہ بالا اپنے بھائی کے پاس رہن بعوض دو صد روپیہ رکھا اور یہ روپیہ ہمارے والد کو دیا گیا۔ اصل واقعہ یہ تھا کہ در حقیقت کھٹمالہ اور دو صد روپیہ ہماری والدہ کی اپنی ملکیت تھی۔ ہماری والدہ نے کھٹمالہ اپنے بھائی کے پاس امانت رکھ کر اور خود رقم دے کر ہمارے والد کی ضرورت پوری کی لیکن ہمارے والد کو مذکورہ بالا بیان کیا تا کہ یہ دوسرے کا قرضہ سمجھ کر جلدی ادا کرے لیکن اچانک وہ فوت ہو گئی اور ہمارے ماموں نے جس کے پاس یہ کھٹمالہ تھا ہماری والدہ کی فوتگی کے بعد ہماری خالہ کو اصل قصہ بیان کیا۔ ہماری خالہ نے کھٹمالہ اپنے قبضہ میں لے لیا اور کہا کہ جب لڑکے جوان ہوں گے تو ان کو بوقت ضرورت دیا جائے گا مگر اس حقیقت کا ہمارے والد کو پتہ چل گیا اس نے ہمارے ماموں اور ہماری خالہ کو کہا کہ کھٹمالہ مجھے کیوں نہیں دیتے ۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں تم دوسری شادی کرو گے اور اولاد ہوگی مگر یہ کھٹمالہ ان لڑکوں کی والدہ کا ہے جب یہ جوان ہوں گے تو ہم ان کو دیں گےتو ہمارے والد نے یہ سن کر کہا کہ میں کوئی دوسری شادی نہیں کرنا چاہتا۔ اگر تمہیں یقین نہیں تو میرے ساتھ آؤ ہمارے والد نے ہمارے ماموں کو ساتھ لے کر ایک اسٹامپ ایسا تحریر کرایا کہ جس میں تحریر ہے کہ ایک مکان بطریقہ بیع ملکیت کر دیا اور وہ اس ہماری ملکیت کو ۱۶ سال تک مانتار ہا۔ اس کے بعد اس نے دوسری شادی کر لی۔ اس سے اور اولاد ہوئی ۔ اب وہ جھگڑا کرتا ہے کہ مکان مجھے واپس دو کیونکہ میں نے اس وقت تمہیں امانت دیا تھا۔ حالانکہ ہم دونوں نا بالغ تھے۔ جبکہ ہمارے والد نے مکان کو ہمارے ملک کیا تھا۔ اس وقت ہمارے پاس اور کچھ نہ تھا دوسرا وہ کہتا ہے کہ اس وقت مجھ پر یہ قرضہ تھا اس کے ڈر سے تمہارے نام کر دیا تھا مگر حقیقتاً قرضہ میں دوسر ے دو مکان رہن تھے۔ یہ مکان رہن قرضہ سے آزاد تھا بعد میں دو مکان قرض خواہ نے بہ معرفت عدالت اپنے قرضہ میں نیلام کرائے تھے۔ قرضہ خواہ کا عدالت نے مطالبہ ختم کر دیا تھا۔ اب وہ کافی مالدار ہے اور اپنی دوسری جائیداد سے ہمیں کچھ نہیں دینا چاہتا بلکہ وہ اپنی کچھ جائیداد دوسری اولا داور بیوی کے نام کر چکا ہے ۔ باقی ماندہ کرنا چاہتا ہے۔ کیا شرعاوہ یہ مکان جو ہماری ملکیت دیا گیا تھا واپس لے سکتا ہے کیا یہ نابالغوں کے پاس امانت رکھی جا سکتی ہے۔
مندرجہ ذیل امور ایسے ہیں جن سے اس کا اس مکان کو ہمیں بخش دینا اور ہبہ کر دینا ثابت ہے۔
یہ کہ انہوں نے چارد کا نیں مستاجری کیں تو وہ ہمارے ہی نام سے کیں اور جب بعد از معیاد کرایہ نامہ کرایہ داروں سے لکھوائے تو وہ بھی ہمارے نام سے لکھوائے گئے اور اپنے ہی سر پر لکھوائے ۔
کرایہ نامہ ہمارے نام سے لکھے جاتے ہیں اور کرایہ ہم اکٹھا کر کے ان کی ضرورت پوری کرتے تھے لیکن جب ان کا اپنا کاروبار شروع ہو گیا تو ہم نے کرایہ بند کر دیا اور یہ رقم ہم دونوں بھائی تقسیم کرتے رہتے ہیں اور کرتے ہیں ۔
۱۹۴۳ء میں ایک ٹکڑا دکان جو کہ ہمارے ساتھ لگتا تھا اس میں ہمارے والد نے بطور سر بر اہ یہ مکان حدودار بعد اس طرح لکھوایا کہ مغر باً مکان مالکان مبہم دونوں بھائی جنو با مکان مالکان ہم دونوں بھائی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حوالہ ۱۹۳۵ سے ۱۹۴۳ سے یہ مانتے چلے آئے ہیں کہ یہ مکان ان دونوں بھائیوں کی ملکیت ہے جب انہوں نے دوسری شادی کی اور اس سے دوسری اولاد ہوئی تو انہوں نے یہ مطالبہ کیا۔
جواب: صورت مسئولہ میں قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ جائیداد متنازعہ فیہ کو باپ نے ہبہ کردیا تھا لہٰذا اس مکان میں دوسرا شخص شریک نہیں ہوسکتا۔ شامی ص:۶۸۸،ج:۵:قلت فقد أفاد ان التلفظ بالايجاب والقبول لا يشترط بل تكفى القرائن الدالة على التمليك الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved