• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قرض کی ادائیگی سونے یا چاندی میں کرنا

استفتاء

ایک مکان واقع ******* پانچ مرلہ  زید  مرحوم کی ملکیت ہے۔ مرحوم کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ 2008 میں بڑے بیٹے جن کا نام  عمر  تھا، انہوں نے اپنے بہنوئی  بکر  صاحب کو مکان کی وراثت کی مد میں 3,50,000 روپے ادا کر دیے اور  بکر  صاحب کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے کسی قسم کی کوئی تحریر نہیں لی۔ اب 2025 میں  بکر  صاحب وراثت کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ جب ان کو بتایا گیا کہ آپ کو 2008 میں وراثت کی رقم دے دی تھی تو جواب میں انہوں نے کہا وہ میں نے ادھار لیے تھے۔ اس بات کا علم  عمر  صاحب(مرحوم) کی بیگم اور ایک لڑکی کو ہے اس کے علاوہ اور کوئی گواہ نہیں ہے۔ ایک مولوی صاحب نے ہمیں یہ کہا ہے کہ 2008 میں جس دام کا سونا تھا، 3,50,000 روپے میں جتنا سونا بنتا ہے آپ اس سے لے سکتے ہیں اور اس کو وراثت کی رقم جو آج کے حساب سے بنتی ہے وہ ادا کر دیں۔ اگر ایسے ممکن ہے تو براہ مہربانی ہمیں فتوی چاہیے تاکہ یتیم بچوں کو زیادتی سے بچایا جائے۔

نوٹ:  عمر  صاحب بھی فوت ہو چکے ہیں اور ان کی بہن جو  بکر  صاحب کی بیوی تھی وہ بھی فوت ہو چکی ہے یہ دونوں 2008 کے بعد فوت ہوئے ہیں۔

وضاحت مطلوب ہے: بکر صاحب کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔

جواب وضاحت: *********

مزید وضاحت مطلوب ہے: آپ کے دیے ہوئے نمبر پر رابطہ کیا گیا تو بتایا گیا کہ یہ  بکر صاحب کا نمبر نہیں ہے لہٰذا درست نمبر ارسال کریں۔

جواب وضاحت: جی یہ ان کا نمبر نہیں ہے۔ انہوں نے اپنا نمبر بند کیا ہوا ہے۔ رابطہ مشکل ہے آپ دیکھ لیں کیا کرنا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کے لیے گنجائش ہے کہ 2008 میں 3,50,000 روپے کی جتنی چاندی یا  جتنا سونا  آتا تھا  اتنی چاندی یا اتنا سونا  قرض کی مد میں  بکر  صاحب سے وصول کر لیں اور اسے وراثت میں سے موجودہ حساب سے وراثت دے دیں۔

شامی (7/55) میں ہے:

وفي الذخيرة عن المنتقى ‌إذا ‌غلت ‌الفلوس قبل القبض أو رخصت. قال: أبو يوسف، قولي وقول أبي حنيفة في ذلك سواء وليس له غيرها، ثم رجع أبو يوسف وقال: عليه قيمتها من الدراهم، يوم وقع البيع ويوم وقع القبض. اهـ. وقوله: يوم وقع البيع أي في صورة البيع، وقوله: ويوم وقع القبض أي في صورة القرض كما نبه عليه في النهر في باب الصرف.

وحاصل ما مر: أنه على قول أبي يوسف المفتى به لا فرق بين الكساد والانقطاع والرخص والغلاء في أنه تجب قيمتها يوم وقع البيع أو القرض لا مثلها، وفي دعوى البزازية، من النوع الخامس عشر، عن فوائد الإمام أبي حفص الكبير استقرض منه دانق فلوس حال كونها عشرة بدانق، فصارت ستة بدانق أو رخص وصار عشرون بدانق يأخذ منه عدد ما أعطى ولا يزيد ولا ينقص. اهـ. قلت: هذا مبني على قول الإمام، وهو قول أبي يوسف أولا، وقد علمت أن المفتى به قوله: ثانيا بوجوب قيمتها يوم القرض، وهو دانق أي سدس درهم سواء صار الآن ستة فلوس بدانق أو عشرين بدانق تأمل

مسائل بہشتی زیور(2/256) میں ہے:

کسی سے ہزار روپے قرض لیے۔ اس وقت چاندی سو روپے تولہ کے حساب سے ایک ہزار روپے کی دس تولہ آتی تھی۔ جب مثلاً سال بعد قرض واپس کرنے لگے تو اس وقت چاندی کےنرخ بڑھے ہوئے تھے اور ایک ہزار کی نو تولہ چاندی ملنے لگی۔ تو قرض خواہ مقروض سے روپوں کے بجائے دس تولہ وصول کر سکتا ہے۔ اسی طرح اگر نرخ گر گئے تب مقروض کو حق حاصل ہے کہ وہ قرض خواہ کو صرف دس تولہ چاندی واپس دے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved