- فتوی نمبر: 9-239
- تاریخ: 17 جنوری 2017
- عنوانات: مالی معاملات > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
*** سے ایک لاکھ روپے بطور قرض کے مانگتا ہے، *** کہتا ہے کہ بینک سے یک مشت ایک لاکھ روپے نکلوانے پر بینک چھ سو روپے کٹوتی کرتا ہے، وہ کس کے ذمے ہو گی؟ *** کہتا ہے کہ وہ میرے ذمے، یعنی: تم چھ سو روپے کاٹ کر ننانوے ہزار چار سو روپے مجھے دے دو۔ پھر بعد میں *** پورے ایک لاکھ روپے *** سے وصول کرتا ہے۔ شرعاً اس معاملے کا کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگر واقعۃً *** کا *** کو بینک سے یہ رقم نکلوا کر دینے میں خرچہ ہوا ہو تو وہ خرچہ *** سے لیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر واقعۃً خرچہ نہ ہوا ہو، مثلاً پچاس پچاس ہزار کے دو چیک بنا دیے ہوں، جو *** نے مختلف دنوں میں کیش کرائے ہوں یا *** نے چیک کیش ہی نہ کرائے ہوں، بلکہ اپنے یا کسی اور کے اکاؤنٹ میں براہ راست جمع کرا دیے ہوں یا *** نے پہلے سے اپنی ضرورت سے رقم نکلوا کر رکھی ہوئی تھی اور وہ رقم اٹھا کر *** کو دیدی تو ان تمام صورتوں میں *** سے کچھ کٹوتی کرنا جائز نہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved