• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قرض کی رقم پر زکوۃ کون اداکرے گا؟

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1۔ کیا فرماتے ہیں   علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں   کہ ایک شخص کسی کو رقم قرض دے، اب مقروض کچھ سال بعد وہ رقم واپس کر دے تو اس رقم کی زکوٰۃ مقروض ادا کرے گا یا جس نے قرض دیا تھا یعنی مالک زکوٰۃ ادا کرے گا؟

2۔ بہو کا زیور ساس رکھ لے اور واپس نہ کرے، زیور بھی بہو اپنی ماں   کی طرف سے لائی ہو، اب بہو کہے کہ میں   معاف نہیں   کروں   گی۔ ساس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء (خاوند، دیور) وغیرہ ان کا زیور واپس کریں   گے تو اب پندرہ بیس سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ اس زیور کی رہنے والی زکوٰۃ ساس کے ذمے ادا کرنی  تھی یا بہو ادا کرے گی۔ وہ زیور انہوں   نے اپنے کسی کام میں   لگا دیا تھا اب موجود نہیں   ہے۔

وضاحت مطلوب ہے:

کہ ساس نے بہو سے زیور کیا کہہ کر لیا تھا اور بہو نے اسے واپس لینے کی کیا کوشش کی تھی؟ نیز اس زیور کی کیا مقدار تھی؟

جواب وضاحت:

1۔ یہ کہا تھا کہ ہم والدین ہیں   ہم زیور اپنے پاس رکھیں   گے۔

2۔ بہو نے بہت کوشش کی، رشتہ داروں   کو بھی  کہا مگر ساس نے زیور واپس  نہیں   کیا۔

3۔ تقریباً دس تولے تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ قرض دینے والا زکوٰۃ ادا کرے گا۔

در مختار (281/3) میں   ہے:

(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، و متوسط و ضعيف (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً و حال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض…. إلخ

2۔ مذکورہ صورت میں   کسی پر زکوٰۃ نہیں  ۔

توجیہ:

ساس پر تو اس لیے زکوٰۃ نہیں   کہ زیور ان کی ملکیت میں   نہیں   تھا۔

اور بہو پر زکوٰۃ اس لیے نہیں   کہ بظاہر ان کو یہ زیور واپس ملنے  کی امید نہیں   تھی جبکہ ساس وہ زیور بیچ بھی چکی تھی اس لیے یہ مال ضمار (وہ مال جس میں   مالک کی ملکیت برقرار رہے اور اس سے نفع حاصل کرنا ممکن نہ ہو) میں   داخل ہے، اور مال ضمار پر گذشتہ سالوں   کی زکوٰۃ نہیں   آتی۔

فتاویٰ شامی (218/2) میں   ہے:

(ولا في مال مفقود) وجده بعد سنين؟ (وساقط في بحر) استخرجه بعدها (ومغصوب لا بينة عليه) فلو له بينة تجب لما مضى …. و في الشامية تحت: قوله ( ولا في مال مفقود الخ ) شروع في مسألة مال الضمار كما يأتي ……  قوله ( فلو له بينة لما مضى ) أي تجب الزكاة بعد قبضه من الغاصب لما مضى من السنين،  قال ح وينبغي أن يجري هنا ما يأتي مصححا عن محمد من أنه لا زكاة فيه لأن البينة قد لا تقبل فيه اه

حاشیہ طحطاوی علیٰ مراقی الفلاح (ص716) میں   ہے:

و إذا قبض مال الضمار لا تجب زكاة السنين الماضية و هو آبق و مفقود و مغصوب ليس عليه بينة.

و في حاشيته:  قوله ( وإذا قبض مال الضمار ) هو مال تعذر الوصول إليه مع قيام الملك درر،  قوله ( آبق ومفقود ) أي وهما من عبيد التجارة،  قوله ( ومغصوب ليس عليه بينة ) فلو له بينة تجب لما مضى در قال في تحفة الأخيار وينبغي أن يجري هنا ما يأتي مصححا عن محمد من أنه لا زكاة فيه لأن البينة قد لا تقبل فيه اه. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved