- فتوی نمبر: 33-361
- تاریخ: 03 اگست 2025
- عنوانات: مالی معاملات > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
ایک دکان دار نے لوگوں کوتقریبا 1700000روپےکا ادھار سامان تجارت دیا ۔دکان میں موجودہ سامان تقریبا 200000 کاپڑاہوا ہے۔اب اس دکاندار نے دوسرے شخص کو 2لاکھ كا سامان اور جو لوگوں پر 17لاکھ قرضہ ہے سب کو 12لاکھ پر فروخت کیا۔ کیا ازروئے شرع یہ جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت ناجائز ہے۔
تو جیہ: مذکورہ صورت میں دو خرابیاں ہیں:
(1) سود لازم آتا ہے کیونکہ 17 لاکھ کے دین اور دو لاکھ کے سامان کو 12 لاکھ میں بیچا جا رہا ہے سامان کے عوض میں 12 لاکھ میں سے جتنے پیسے بھی شمار کریں باقی پیسے 17 لاکھ دین کے عوض بنیں گے یعنی پیسوں کو پیسوں کے بدلے کمی بیشی کے ساتھ بیچا جا رہا ہے جو کہ سود ہے۔
(2) بيع الدين من غير من علیہ الدين لازم آتی ہے جو کہ حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں ہے اور مالکیہ کے نزدیک اگر چہ جائز ہے مگر اس کی شرائط ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ دین کو اس کی جنس کے بدلے میں نہ بیچا جا رہا ہو اور وہ شرط یہاں مفقود ہے اس لیے کہ 17 لاکھ دین اور دو لاکھ سامان کو 12 لاکھ روپے کے بدلے میں بیچا جا رہا ہے لہذا مذکورہ صورت نہ حنفیہ کے نزدیک جائز ہے اور نہ مالکیہ کے نزدیک جائز ہے۔
نیز یہاں پر مدعجوہ والی تفصیل بھی مفید نہ ہوگی کیونکہ مد عجوہ کی تفصیل اس وقت کار آمد ہوتی کہ جس وقت خالص ربوی مال یعنی روپے سامان اور روپوں سے زیادہ ہوتے، چنانچہ روپوں کے عوض میں روپے آ جاتے اور بقیہ روپے سامان کے مقابلے میں آ جاتے لیکن یہاں پر چونکہ خالص مالِ ربوی یعنی روپے سامان اور روپوں سے کم ہے لہذا یہاں پر مد عجوہ والی تفصیل کار آمد نہ ہوگی۔
تبیین الحقائق (4/85) میں ہے:
باب الربا قال رحمه الله (هو فضل مال بلا عوض في معاوضة مال بمال)
بدائع الصنائع (5/148) میں ہے:
ولا ينعقد بيع الدين من غير من عليه الدين؛ لأن الدين إما أن يكون عبارة عن مال حكمي في الذمة، وإما أن يكون عبارة عن فعل تمليك المال وتسليمه، وكل ذلك غير مقدور التسليم في حق البائع، ولو شرط التسليم على المديون لا يصح أيضا؛ لأنه شرط التسليم على غير البائع فيكون شرطا فاسدا فيفسد البيع، ويجوز بيعه ممن عليه؛ لأن المانع هو العجز عن التسليم، ولا حاجة إلى التسليم ههنا، ونظير بيع المغصوب أنه يصح من الغاصب، ولا يصح من غيره إذا كان الغاصب منكرا، ولا بينة للمالك.
فقہ البیوع (1/348) میں ہے:
أما المالكيه فالأصل عندهم عدم جواز بيع الدين من غير المدين ولكنهم أجازوا ذلك بشروط لخصها الزرقاني رحمه الله تعالى بقوله: ومنع بيع دين على حاضر ولو ببينه الا أن يقر والدين مما يباع قبل قبضه وبيع بغير جنسه وليس ذهبا بفضه ولا عكسه وليس بين مشتريه ومن عليه عداوه ولا قصد اعتنائه فلابد من هذه الخمسه شروط.
الرابع أن يباع الدين بغير جنسه فان كان الدين قطنا فلا يجوز بيعه بالقطن وزاد دسوقي أنه إن كان من جنسه فلا بد من التساوي.
شامی (7/560) میں ہے:
والأصل أنه متى بيع نقد مع غيره كمفضض ومزركش بنقد من جنسه شرط زيادة الثمن، فلو مثله أو أقل أو جهل بطل ولو بغير جنسه شرط القابض فقط
بدائع الصنائع (5/217) میں ہے:
وكذا إذا باع سيفا محلى بالفضة مفردة، أو منطقة مفضضة، أو لجاما، أو سرجا، أو سكينا مفضضة، أو جارية على عنقها طوق فضة بفضة مفردة والفضة المفردة أكثر حتى جاز البيع كان بحصة الفضة صرفا.
ويراعى فيه شرائط الصرف وبحصة الزيادة التي هي من خلاف جنسها بيعا مطلقا فلا يشترط له ما يشترط للصرف، فإن وجد التقابض وهو القبض من الجانبين قبل التفرق بالأبدان تم الصرف والبيع جميعا، وإن لم يوجد أو وجد القبض من أحد الجانبين دون الآخر بطل الصرف لوجود الافتراق من غير قبض، وهل يبطل البيع المطلق؟ ينظر إن كانت الفضة المجموعة مع غيرها يمكن فصلها وتخليصها من غير ضرر كالجارية مع الطوق وغير ذلك، فالبيع جائز، وفساد الصرف لا يتعدى إلى البيع.
تحفۃ الفقہاء (3/36) میں ہے:
ولو باع سيفا محلى بذهب أو فضة إن باع بجنس الحلية والثمن أكثر من الحلية جاز وتكون الحلية بيعا بمثل وزنها والفضل بإزاء الجفن والحمائل لأن الأصل عندنا في تقسيم الثمن على المبيع إذا كان أشياء بعضها من جنس الثمن والبعض لا صرف الثمن إلى جنسه بمثل وجه فيه تصحيح العقد ما أمكن وذلك في صرف بعض الثمن ………. وأما إذا كان الثمن مثل الحلية أو أقل فلا يجوز لأنه يبقى الجفن والحمائل فضلا في بيع الربا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved