- فتوی نمبر: 12-290
- تاریخ: 28 ستمبر 2018
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
براہ کرم قرآن اور سنت کے مطابق آگاہ کریں کہ میں نے ایک عدد دوکان ساڑھے چار لاکھ میں خریدنے کا سودا کیا ہے اس مد میں آج دن تک میں دو لاکھ بائیس ہزار روپے نقد درکان کے مالک کو ادا کرچکا ہوں ،بقایا دولاکھ اٹھائیس ہزار روپے میں سے بارہ ہزار روپے ماہوار ادا کرونگا۔مالک نے دوکان کا مکمل قبضہ چھہ ماہ قبل میرے حوالے کردیا تھا اور مالک نے کہا ہے کہ رجسٹری کے کاغذات بنوالو رجسٹری کے کاغذات تیار ہو گئے ہیں صرف مالک نے دستخط کرنے ہیں۔اب دوکان پر میرا قبضہ ہے مالک کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔پتہ یہ کرنا ہے کہ میں مالک کو دولاکھ بائیس ہزار روپے ادا کرچکا ہوں دولاکھ اٹھائیس ہزار دینے ہیں ،دوکان پر میں کام شروع کرچکا ہوں ۔
۱۔ دولاکھ بائیس ہزار جو مالک کو جاچکے ہیں اس پر میں نے زکوۃ دینی ہے یا نہیں؟
۲۔ اور دو لاکھ اٹھائیس ہزار جو میں نے مالک کو بارہ ہزار روپے ماہوار کر کے ادا کرنے ہیں کیا یہ میرے اوپر قرضہ شمار ہو گا؟کیا جو میں نے ادائیگی کردی ہے اس پر اور جو میں نے ادائیگی کرنی ہے اس پر زکوۃ ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۱۔ ان پیسوں پر زکوۃ نہیں ہے۔
۲۔ قرضہ شمار ہوگا۔لہذا زکوۃ سے منھا ہو گا
© Copyright 2024, All Rights Reserved