• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قرض میں زکوۃ کی نیت کرنا

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

مفتی صاحب! زید نے ایک دکاندار سے فریج خریدا، فریج کی قیمت 28000 روپے ہیں۔ زید نے دکاندار سے کہا کہ میں زکوٰۃ کا مستحق ہوں یہ 22000 لے لو اور 6000 زکوٰۃ چھوڑ دو۔ دکاندار نے بل 28000 کا بنایا اور 22000 لیے اور فریج دے دیا۔

زکوٰۃ ادا کرنے کا یہ طریقہ درست ہے یا نہیں؟ باحوالہ جواب دے کر مشکور فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

زکوٰۃ ادا کرنے کا مذکورہ طریقہ درست نہیں۔ درست طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ دکاندار چھ ہزار (6000) روپے اس مستحق شخص کو دے دے اور پھر اپنے فریج کی قیمت میں وصول کر لے۔

توجیہ: سودا مکمل ہونے کے بعد گاہک کے ذمے چھ ہزار دین ہو گئے تھے اور دین کی رقم میں زکوٰۃ کی نیت کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔

فتاویٰ شامی: (3/225) میں ہے:

واعلم أن أداء الدين عن الدين والعين عن العين وعن الدين يجوز، وأداء الدين عن العين، وعن دين سيقبض لا يجوز. و في الشامية تحت  قوله ( واعلم الخ) المراد بالدين ما كان ثابتا في الذمة من مال الزكاة وبالعين ما كان قائما في ملكه من نقود وعروض والقسمة رباعية لأن الزكاة إما أن تكون دينا أو عينا والمال المزكى كذلك لكن الدين إما أن يسقط بالزكاة أو يبقى مستحق القبض بعدها فتصير خمسة فيجوز الأداء في ثلاثة :

 الأولى: أداء الدين عن دين سقط بها كما مثل من إبراء الفقير عن كل النصاب.

 الثانية: أداء العين عن العين كنقد حاضر عن نقد أو عرض حاضر.

 الثالثة: أداء العين عن الدين كنقد حاضر عن نصاب دين.

وفي صورتين لا يجوز.

الأولى: أداء الدين عن العين كجعله ما في ذمة مديونه زكاة لماله الحاضر بخلاف ما إذا أمر فقيرا بقبض دين له على آخر عن زكاة عين عنده فإنه يجوز لأنه عند قبض الفقير يصير عينا فكان عينا عن عين.

 الثانية: أداء دين عن دين سيقبض كما تقدم عن البحر وهو ما لو أبرأ الفقير عن بعض النصاب ناويا به الأداء عن الباقي وعلله بأن الباقي يصير عينا بالقبض فيصير مؤديا بالدين عن العين اه ولذا أطلق الشارح الدين أولا عن التقييد بالسقوط ولقوله بعده سيقبض..

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved