- فتوی نمبر: 7-27
- تاریخ: 08 ستمبر 2014
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
*** اپنی دکان پر مال اس طریقے سے لاتا ہے کہ جو سوٹ 10000 کا بیچنا ہے وہ اسے 9500 کا ملتا ہے (یعنی 500 شرح منافع پہلے ہی سے اندازہ ہوتا ہے) اور بعض اوقات ادھار پر سامان لیتا ہے کہ دو ماہ بعد ادائیگی کروں گا۔ اگر پارٹی کو رقم کی نقد ضرورت ہو تو وہ *** سے کہتی ہے کہ ہم تمہیں 10000 سوٹ 90000 کا دیتے ہیں (یعنی ڈسکاؤنٹ ڈبل کر دیتے ہیں) لیکن رقم نقد ادا کر دو اب *** رقم کے لیے دوست (***) سے رابطہ کرتا ہے اور کہتا ہے تم مجھے 9000 مجھے دو میں تمہیں خاص اس ڈیل میں شریک کر لیتا ہوں اور 9400 دوں گا، دو ماہ بعد (کیونکہ *** کو پہلے ہی معلوم ہے کہ 9000 روپے والا کپڑا 10000 روپے میں بک جائے گا)۔ *** خود 500 روپے رکھتا ہے، 100 روپے اخراجات کی مد میں کاٹے اور 400 روپے *** کو دے گا، *** کا *** سے معاملہ شرعاً اگر نا جائز ہے تو جواز کی کوئی صورت بتائیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ایسا کرنا جائز نہیں۔ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ *** *** سے کہے کہ تم میرے ساتھ چل کر 9000 میں سوٹ خرید لو، پھر میرے ہاتھ اتنی مدت کے ادھار پر 9400 روپے میں فروخت کر دو، ان دونوں مرحلوں پر حقیقی عمل ہو فرضی نہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved