- فتوی نمبر: 33-223
- تاریخ: 24 جون 2025
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت > قسطوں پر خرید و فروخت
استفتاء
1۔ایک بندہ قرض اس طرح دیتا ہے کہ مجھے لاکھ روپے پر دس ہزار دو گے۔ اس کی صورت اس طرح بناتا ہے کہ قرض لینے والے کے لیے کوئی چیز مثلاً موٹر سائیکل گاڑی وغیرہ خریدتا ہے پہلے اسے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے پھر اسے قرض لینے والے کو دیدیتاہے پھر قرض لینے والا اسے دوسرے کے ہاتھ فروخت کرتا ہے اوروہ ان پیسوں سے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے۔ یاد رہے کہ اس صورت میں موٹر سائیکل یا گاڑی وغیرہ دوبارہ اسی شخص کو نہیں بیچی جاتی بلکہ کسی ایسے شخص کو بیچی جاتی ہے جس کے ساتھ پہلے بائع کا کوئی مالی مفاد وابستہ نہیں ہوتا۔
2۔اور بعض دفعہ کسی کوکوئی چیز مثلاً موٹر سائیکل گاڑی وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کے لیے یہ بندہ یہی چیز خرید کر اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اور پھر اسے قسطوں میں پانچ ہزاریادس ہزار کے نفع سے دیدیتاہے۔ کیا یہ صورتیں جائز ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت میں دو معاملے ہیں:
( ۱) قرض دینے والے کا موٹر سائیکل خریدنا اور قبضہ کرنا ۔ (۲) ضرورت مند کو موٹرسائیکل بیچنا ۔
ان دونوں معاملوں کے جائز ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ پہلا معاملہ دوسرے معاملے کے ساتھ مشروط نہ ہو بلکہ دوسرے معاملے کی حیثیت صرف وعدہ کی ہو اور وعدہ کا مطلب یہ ہے کہ قرض دینے والا موٹر سائیکل وغیرہ خریدنے کے بعد قرض لینے والے کو اسے خریدنے پر مجبور نہ کرے البتہ قرض لینے والے کے نہ خریدنے کی وجہ سے قرض دینے والے کا کوئی حقیقی نقصان ہو تو اس کی تلافی کروائی جا سکتی ہے اس شرط کا لحاظ کرنے کے بعد آگے اس معاملہ کی تین صورتیں بنتی ہیں :
(۱) موٹرسائیکل خریدنے والا یعنی ضرورت مند پھر اسی بیچنے والے کو یہ موٹرسائیکل وغیرہ بیچ دے ۔
(۲) موٹر سائیکل خریدنے والا ضرورت مند آگے کسی ایسے شخص کو یہ موٹر سائیکل وغیرہ بیچے جو کسی سابقہ سمجھوتے کے پیش نظر اسی قرض دینے والے کو بیچ دے یہ دونوں صورتیں بیع عینہ میں داخل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ۔
(۳) تیسری صورت یہ ہے کہ ضرورت مند آگے کسی ایسے تیسرے شخص کو بیچے جس کا قرض دینے والے کے ساتھ واپس بیچنے کا کوئی سمجھوتہ نہ ہو یہ صورت جائز ہے لیکن یہ صورت بھی دراصل قرض سے نفع اٹھانے کا ایک حیلہ ہے اور خلاف اولی ہے لہذا اسے باقاعدہ کاروبار کی صورت نہیں بنانا چاہیے ۔
2۔ مذکورہ صورت جائز ہے بشرطیکہ مذکورہ بندہ موٹر سائیکل وغیرہ خریدنے کے بعد ضرورت مند کو اس موٹرسائیکل وغیرہ کے خریدنے پر مجبور نہ کرے البتہ ضرورت مند کے موٹر سائیکل وغیرہ نہ خریدنے کی وجہ سے مذکورہ بندے کا اگر کوئی حقیقی نقصان ہو تو اس کی تلافی کروائی جا سکتی ہے
1۔ فتح القدیر (6/324) میں ہے:
ثم الذي يقع في قلبي ان ما يخرج الدافع ان فعلت صورة يعود فيها اليه هو او بعضه. كعود الثوب او الحرير.. فمكروه والا فلا كراهة الا خلاف الاولى على بعض الاحتمالات كان يحتاج المديون فيابى المسؤول ان يقرض بل ان يبيع ما يساوي عشرة بخمسة عشرالى اجل فيشتريه المديون ويبيعه في السوق بعشرة حالة
ولا باس في هذا فان الاجل قابله قسط من الثمن والقرض غير واحب عليه دائما بل هو مندوب. فان تركه بمجرد رغبه عنه الى زياده الدنيا فمكروه. او لعارض يعذر فلا. وانما يعرف ذلك في خصوصيات المواد وما لم ترجع اليه العين التي خرجت منه لا يسمى بيع العينه. لانه من العين المسترجعه لا العين مطلقا والا فكل بيع بيع العينه
فقہ البیوع (1/77) میں ہے:
حكم الوعد او المواعده في البيع المشهور مما نقل عن جمهور الفقهاء ان الوفاء بالوعد مستحب مندوب وهو من مكارم الاخلاق ولكنه ليس بواجب ديانه ولا قضاء والوعد اذا ترك الوفاء فقد فاته الفضل وارتكب المكروه المكروه كراهه تنز يهية شديده ولكنه لا ياثم وهذا القول منسوب الى ابي حنيفه والشافعي واحمدا وبعض المالكيه.
حاشيہ ابن عابدين (7/655)میں ہے:
قال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا، وقد ذمهم رسول الله – صلى الله عليه وسلم – فقال: «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم» أي اشتغلتم بالحرث عن الجهاد.وفي رواية «سلط عليكم شراركم فيدعوا خياركم فلا يستجاب لكم» وقيل إياك والعينة فإنها اللعينة.
ثم قال في الفتح ما حاصله: إن الذي يقع في قلبي أنه إن فعلت صورة يعود فيها إلى البائع جميع ما أخرجه أو بعضه كعود الثوب إليه في الصورة المارة وكعود الخمسة في صورة إقراض الخمسة عشر فيكره يعني تحريما، فإن لم يعد كما إذا باعه المديون في السوق فلا كراهة فيه بل خلاف الأولى، فإن الأجل قابله قسط من الثمن، والقرض غير واجب عليه دائما بل هو مندوب وما لم ترجع إليه العين التي خرجت منه لا يسمى بيع العينة؛ لأنه من العين المسترجعة لا العين مطلقا وإلا فكل بيع بيع العينة اه وأقره في البحر والنهر والشرنبلالية وهو ظاهر، وجعله السيد أبو السعود محمل قول أبي يوسف، وحمل قول محمد والحديث على صورة العود
شامی (7/576) میں ہے:
(قوله: في بيع العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها. قال بعضهم: تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في فضل لا يناله بالقرض فيقول لا أقرضك، ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما وقيمته في السوق عشرة ليبيعه في السوق بعشرة فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك، فيحصل لرب الثوب درهما وللمشتري قرض عشرة. وقال بعضهم: هي أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما ويسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض من الثالث بعشرة ويسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه وهو المقرض بعشرة ويسلمه إليه، ويأخذ منه العشرة ويدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرة ولصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما، كذا في المحيط، وعن أبي يوسف: العينة جائزة مأجور من عمل بها، كذا في مختار الفتاوى هندية. وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا. وقال عليه الصلاة والسلام «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم» قال في الفتح: ولا كراهة فيه إلا خلاف الأولى لما فيه من الإعراض عن مبرة القرض اهـ ط ملخصا.
(قوله: ويأتي متنا في الكفالة) وإنما نبه على ذكره هنا؛ لأنه من أقسام البيوعات، ونبه على أن بيانه سيأتي في الكفالة
امداد الفتاوی(3/40)میں ہے:
سوال: عمرو نے زید کو مبلغ 100 روپے واسطے خریدنے جفت پاپوش کے دئیے اور کوئی اجرت بطور معاوضہ خریداری کے قرار نہیں پائی، متعاقدین میں اجرت کی نسبت ذکر بھی نہیں آیا ، اور قبل خریداری مال اور دینے زر کی قیمت کے باہمی یہ امر طے ہو چکا تھا کہ یہ مال مبلغ سواچھ روپے سیکڑہ کے منافع سے بمیعاد ایک مہینے کے تم کو دے دیں گے، مال دسادر سے خرید کر زید اپنے گھر لے آیا ، اور عمرو کو بلا کر مال دکھلا کر جوڑ دیا یعنی شمار کرا دیا ، اور دونوں نے سمجھ لیا کہ یہ مال مبلغ 100 روپے کا ہے، اس کے بعد عمر ونے زید سے دریافت کیا کہ تم یہ مال ہم سے کس قدر مدت کے واسطے بشرح منافع مذکورہ بالا لیتے ہو، زید نے کہا کہ ایک ماہ کے واسطے لیتا ہوں ۔عمرو نے اس کو قبول کیا ، بعد ختم ہوئے مدت ایک ماہ کے عمرو نے زید سے اصل روپیہ مع منافع طلب کیا ، زید نے صرف منافع مبلغ سوا چھ روپے عمرو کو دے کر اصل روپیہ کی نسبت عذر کیا کہ میرے پاس اس وقت موجود نہیں ہے بلکہ کچھ مال موجود ہے ،کچھ نقد ہے اور کچھ ادھار میں ہے ،عمر ونے کہا کہ اگر تمہارے پاس زر اصل موجود نہیں ہے تو تم اس کے عوض میں اس قدر کا مال آئندہ کے لیے مجھ کو دے کر اور جوڑواکر پھر ہم سے اس کو خرید لو، زید نے مبلغ 100 روپے کا مال اپنے پاس دکھلایا، اور عمر کو دے کر جڑوا دیا ، اور پھر بشرح منافع بالا عمر وسے خرید لیا ، اور مدت کبھی ایک ماہ تراضی طرفین سے قرار پاتی ہے اور کبھی زائد،
جواب: یہاں دو بیعیں علی سبیل التعاقب ہیں، ایک وہ کہ زید نے عمرو سے مال خریدا، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر زید عمرو کو اور عمرو زید کو بیع وشراء پر بنا بر وعدہ سابقہ مجبور نہ کرے تو جائز ہے ، اور اگر مجبور کرے ناجائز ہے،دوسرے بیع وہ جو سو روپیہ بقیہ زر ثمن کے عوض میں زید نے عمرو کو دیا ، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس میں یہ شرط ٹھہری کہ پھر عمرو سے زید اس کو خریدے گا تو حرام ہے ، اور اگر یہ شرط نہ ٹھہری پھر اگر خریدے آزادی سے، جدید رائے سے خریدے تو جائز ہے۔
مسائل بہشتی زیور (2/237)میں ہے:
بیع عینہ:اس کی دو بڑی ممکنہ صورتیں اور چند ذیلی صورتیں ہیں :۱۔زید نے بکر سے ایک ہزار روپے قرض مانگے۔ بکر نے کہا میں تمہیں قرض نہیں دیتا البتہ وہ سامان جس کی نقد قیمت ایک ہزار ہے تمہارے ہاتھ بارہ سو روپے میں ادھار فروخت کرتا ہوں ۔ تم اس کو ایک ہزار روپے میں فروخت کر کے اپنا کام چلاؤ۔ زید اس پر راضی ہو کر بکر سے سامان بارہ سو میں ادھار خریدتا ہے۔ اب آگے اس میں تین ذیلی صورتیں بنتی ہیں :(الف) زید وہ مال خود بکر کے ہاتھ ایک ہزار روپے میں نقد فروخت کرتا ہے۔(ب) باہمی تجویز سے زید وہ مال ایک تیسرے شخص خالد کے ہاتھ ایک ہزار روپے میں فروخت کرتا ہے اور پھر خالد سے بکر ایک ہزار روپے میں نقد خرید لیتا ہے۔ بکر خالد کو قیمت کے ایک ہزار روپے دیتا ہے اور خالد زید کو ادا کر دیتا ہے۔ اس طرح سے زیدکو ایک ہزار روپے مل جاتے ہیں اور بکر کے اس کے ذمہ بارہ سو روپے بن جاتے ہیں ۔یہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں اور یہی وہ صورتیں ہیں جن کے بارے میں امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بیع کا میرے دل پر ایسا بوجھ ہے جیسے پہاڑوں کا، یہ ایک مذموم معاملہ ہے جو سود خوروں نے گھڑ لیا ہے۔(ج) زید وہ مال ایک تیسرے شخص کو نقد ہزار روپے میں فروخت کر دے۔ اس تیسرے شخص سے بکر کا خریدنا طے نہ ہو۔یہ صورت امام ابو یوسفؒ کے نزدیک جائز ہے اور غالباً امام محمدؒ کے نزدیک بھی ایسے ہی ہے کیونکہ سامان جب تک پہلے بائع کے پاس لوٹ کر نہ آئے اس کو عینہ نہیں کہا جاتا۔
2۔شرح المجلہ (رقم المادة 245) میں ہے:
البيع مع تعديل الثمن وتقسيطه صحيح
وفيه ايضا رقم الماده ٢٤٦: يلزم ان يكون المدة معلومة في البيع بالتاجيل والتقسيط
الفقہ الاسلامی وادلتہ (7/5199) میں ہے:
البيع بالتقسيط جائز شرعا ولو زاد فيه الثمن المؤجل على المعجل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved