- فتوی نمبر: 34-17
- تاریخ: 28 اگست 2025
- عنوانات: مالی معاملات > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
1۔ ہمارے علاقے میں ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو ایک لاکھ روپے دیے ہیں اور اس ایک لاکھ روپے کے بدلے وہ ہر سال اس کی زمین سے گھاس کاٹتا ہے جب تک وہ ایک لاکھ روپے واپس نہیں کرے گا وہ اس کی زمین سے گھاس کاٹتا رہے گا۔کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
2۔اگر کوئی شخص کسی سے اس شرط پر زمین لے کہ میں ہر سال آپ کو فکس رقم مثلاً 10 ہزار روپے دوں گا اور وہ اس کی زمین سے گندم،مکئی اور گھاس کاٹتا رہے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
3۔اگر کوئی شخص کسی سے اس شرط پر زمین لے کہ میں اس زمین میں گندم اور مکئی بوؤں گا اور آدھی آپ کو دوں گا یعنی زمین کا مالک اور کچھ بھی نہیں کرے گا صرف بیج اور کھاد کے آدھے پیسے دے گا اور گندم اور مکئی سے اس کوآدھا حصہ تیار ملے گا تو کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟
وضاحت مطلوب ہے: (1) جو شخص سالانہ 10 ہزار دے کر زمین سے گندم اور مکئی کاٹتا رہتا ہے تو گندم کی کاشت کون کرتا ہے؟ زمین کا مالک یا 10 ہزار دینے والا؟(2) تیسرے سوال میں جو صورت مذکور ہے اس کا آپ کے علاقے میں عام رواج ہے یا صرف آپ ہی یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں؟(3) کھیتی باڑی کے آلات کس کی طرف سے ہوں گے؟
جواب وضاحت: (1) گندم اور مکئی کی کاشت 10 ہزار دینے والا کرتا ہے۔ (2) عام رواج ہے۔(3) مالک کے ہوں گے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ اس میں قرض کے بدلے نفع حاصل کیا جا رہا ہے وہ اس طرح کہ روپے دینےوالے کے روپے زمیندارکےذمےقرض ہیں اور قرض کی وجہ سے ہی زمیندار اپنی زمین کا نفع پہلے شخص کو دے رہا ہے اور ہر وہ قرض جس کی وجہ سے مقروض سے نفع اٹھایا جائے سود ہے لہذا مذکورہ معاملہ سودی ہونے کی وجہ سے جائز نہیں۔
2۔ مذکورہ معاملہ درست ہے۔
توجیہ : مذکورہ معاملہ زمین کو کرائے پر لینے کا ہے اور اس میں ہر سال کی اجرت بھی معلوم ہے لہٰذا یہ صورت جائز ہے۔
3۔ مذکورہ صورت فقہ حنفی کی رو سے تو جائز نہیں تا ہم فقہ شافعی کی رو سے جائز ہے اور چونکہ مذکورہ صورت کا رواج ہے اس لیے مذکورہ صورت میں فقہ شافعی پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔
توجیہ : مزارعت میں بیج اگرمالک اورمزارع دونوں کی طرف سے ہو تو یہ صورت حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں البتہ شوافع کے نزدیک یہ صورت جائز ہے اور ان کے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ مالک مزارع کو اپنی زمین اور آلات مزارع کے عمل کے بدلے میں دے رہا ہے اور پیداوار دونوں میں بیج کے مشترک (آدھا آدھا) ہونے کی وجہ سے باہم آدھی آدھی تقسیم ہوگی۔
1۔الجامع الصغیر وزیادتہ (رقم الحدیث:9728) میں ہے:
كل قرض جر نفعا فهو ربا
تبیین الحقائق شرح كنز الدقائق (6/ 29) میں ہے:
(قوله: ومن وضع درهما عند بقال إلخ) قال الكرخي في مختصره في كتاب الصرف وكل قرض جر منفعة لا يجوز مثل أن يقرض دراهم غلة على أن يعطيه صحاحا أو يقرض قرضا على أن يبيع به بيعا؛ لأنه روي أن كل قرض جر منفعة فهو ربا.
2۔ الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص574) ميں ہے:
(و) تصح إجارة (أرض للزراعة مع بيان ما يزرع فيها، أو قال على أن أزرع فيها ما أشاء) كي لا تقع المنازعة
3۔بدائع الصنائع (6/180) میں ہے:
(ومنها) : أن يشترط في عقد المزارعة أن يكون بعض البذر من قبل أحدهما، والبعض من قبل الآخر، وهذا لا يجوز؛ لأن كل واحد منهما يصير مستأجرا صاحبه في قدر بذره، فيجتمع استئجار الأرض والعمل من جانب واحد وإنه مفسد
نہایۃ المطلب فی درایۃ المذہب (8/218) میں ہے:
ثم الناس مبتلون بصورة المزارعة مع الحرّاثين، فذكر العلماء حيلاً قريبة في تصحيح الغرض، ذكر الشافعي منها حيلتين- إحداهما- أن يعير مالكُ الأرض نصفَ الأرض من صاحبه، ثم يأتيان ببَذْر من عندهما، ويعملان فيها معاً، فيكون الزرع بينهما نصفين بحكم الاشتراك في البَذْر. وهذا صحيح.
ولكن عمل مالك الأرض مع الحراث، غيرُ معتاد؛ فالأولى تمهيدُ طريقٍ تُبرىء مالكَ الأرض من العمل فقال الشافعي في ذلك: يكري مالكُ الأرض نصفَ الأرض بنصف عمل العامل، ونصف منفعة الآلات التي يستعملها العامل- إن كانت الآلات له، ويكون البَذْر مشتركا، فيشتركان في الزرع على حسب الاشتراك في البذر، فإن ملك الغلّة يتبع ملكَ البذر في الخلوصِ والاشتراكِ، والعملُ يقع نصفُه عوضاً عن نصف منفعة الأرض، فيعتدل الأمر. وإذا أراد أن يكون الزرع بينهما أثلاثاً، فليكن البذر بينهما كذلك، فالتعويل على البذر۔
مغنی المحتاج(2/325)میں ہے:
ثم شرع في حيلة تسقط الأجرة وتجعل الغلة مشتركة بين المالك والعامل في الصورة السابقة، فقال: (وطريق جعل الغلة لهما) في صورة إفراد الأرض بالمزارعة (ولا أجرة) لأحدهما على الآخر تحصل بصورتين: إحداهما (أن يستأجره) أي المالك العامل (بنصف البذر) شائعا (ليزرع له النصف الآخر) في الأرض، (ويعيره نصف الأرض) شائعا، ومن هنا يؤخذ جواز إعارة المشاع المفيدة إسقاط الأجرة، بخلاف ما إذا لم يعره نصفها، واستأجره لزراعة نصف البذر، فزرع جميعه فإنه يلزمه أجرة نصف الأرض
والطريق الثاني ما أشار إليه بقوله: (أو يستأجره) أي العامل (بنصف البذر) شائعا، (ونصف منفعة الأرض) كذلك (ليزرع) له (النصف الآخر) من البذر (في النصف الآخر) – بفتح الخاء، ويجوز كسرها على معنى المتأخر – (من الأرض) فيكونان شريكين في الزرع على المناصفة، ولا أجرة لأحدهما على الآخر؛ لأن العامل يستحق من منفعة الأرض بقدر نصيبه من الزرع، والمالك من منفعته بقدر نصيبه من الزرع. فإن قيل: ما الفرق بين الطريقين؟ .
أجيب بأنه في الأولى جعل الأجرة عينا، وفي الثانية عينا ومنفعة، وفي الأولى متمكن من الرجوع بعد الزراعة في نصف الأرض، ويأخذ الأجرة، وفي الثانية لا يتمكن، ويفترقان أيضا في أنه لو فسد منبت الأرض في المدة لزمه قيمة نصفها على الأول دون الثاني؛ لأن العارية مضمونة.
تنبيه قد توهم عبارته الحصر في الطريقين، وليس مرادا، بل من ذلك أن يقرض المالك العامل نصف البذر ويؤجره نصف الأرض بنصف عمله ونصف منافع دوابه وآلاته، ومنه أن يعيره نصف الأرض والبذر منهما ثم يعمل العامل، فالمغل بينهما ولا تراجع؛ لأن كلا منها متطوع، لكن البذر في هذا ليس كله من المالك. وطريق جعل الغلة لهما في المخابرة ولا أجرة: أن يستأجر العامل نصف الأرض بنصف البذر ونصف عمله ومنافع دوابه وآلاته، أو بنصف البذر ويتبرع بالعمل والمنافع، ولا بد في هذه الإجارات من رعاية الرؤية وتقدير المدة وغيرهما من شروط الإجارة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved