• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قسم کا کفارہ۔ متعدد قسموں کا کفارہ۔ تعداد یاد نہ ہونے کی صورت میں کفارے کا حکم

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

براہ کرم مندرجہ ذیل مسائل کی وضاحت فرما کر مممنون فرمائیں۔

قسم کا کفارہ کیا ہے؟ یعنی اگر کوئی انسان قسم کھا کر پوری نہ کر سکے اور توڑ دے تو اس کا کیا کفارہ ہے؟ اگر کسی نے زندگی میں ایک سے زیادہ بار قسم کھائی ہو اور پھر قسم توڑ دی تو اس  کا کفارہ ایک ہی بار دینا پڑے گا یا جتنی بار قسم توڑی ہو اتنی بار دینا پڑے گا؟ اگر تعداد  یاد نہ ہوتو  کیا کرے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ موجودہ دور میں قسم کا کفارہ یہ ہے کہ یا تو دس مستحق زکوٰۃ لوگوں کو ایک ایک سوٹ بنا دے یا ایسے دس لوگوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا ایک مستحقِ زکوٰۃ آدمی کو دس دن تک دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس آدمیوں کو فی آدمی پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دیدے۔ اگر اتنی گنجائش نہ ہو تو تین دن مسلسل روزے رکھے۔

2۔ جتنی قسمیں توڑیں ہیں اتنے ہی کفارے دینے ہوں گے۔ ایک ہی کفارہ کافی نہ ہو گا۔

3۔ اگر تعداد یاد نہ ہو تو اپنے غالب گمان پر عمل کریں۔

فتاویٰ تاتارخانیہ (6/300) میں ہے:

كفارة اليمين ما ذكره الله تعالى في قوله ((لا  يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم ولكن يؤاخذكم بما عقدتم الإيمان فكفارته إطعام عشرة مساكين من أوسط ما تطعمون أهليكم أو كسوتهم أو تحرير رقبة)) بعد هذا ينظر إن كان الحالف موسراً فكفارته أحد الأشياء الثلاثة ولا يجزيه الصوم وإن كان معسراً فكفارته الصوم.

بحر رائق (4/490) میں ہے:

وفي التجريد عن أبي حنيفة رحمه الله: إذا حلف بأيمان فعليه لكل يمين كفارة والمجلس والمجالس سواء.

مبسوط سرخسی (8/186) میں ہے:

(إذا حلف الرجل على أمر لا يفعله أبداً ثم حلف في ذلك المجلس أو في مجلس آخر لا يفعله أبداً، ثم فعله كانت عليه كفارة يمينين) لأن اليمين عقد يباشره بمبتدأ وخبر، وهو شرط وجزاء والثاني ذلك مثل الأول فهما عقدان، فبوجود الشرط مرة واحدة يحنث فيهما، وهذا إذا نوى يميناً أخرى، أو نوى التغليظ، لأن معنى التغليظ بهذا يتحقق أو لم يكن له نية لأن المعتبر صيغة الكلام عند ذلك، ثم الكفارات لا تندرئ بالشبهات خصوصاً في كفارة اليمين، فلا تتداخل.

وفيه أيضاً: (8/161):

وإن أعطى قيمة الطعام يجوز.

طحطاوی علی المراقی الفلاح (ص: 447) میں ہے:

خاتمة: من لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء……………………………………. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved