• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قصبے میں نماز جمعہ ادا کرنا

استفتاء

عرض یہ ہے کہ چکوال میں ایک گاؤں ہے جس میں عرصہ دراز سے جمعہ ہو رہا ہے حتی کہ اس گاؤں کے 65 سالہ بزرگ سے ہم نے پو چھا کہ اس گاؤں میں جمعہ کب سے شروع ہے تو انہوں نے فرمایا ہم نے یوں ہی دیکھا ہے یعنی جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے جمعہ ہو رہا ہے عرصہ دراز سے پورے گاؤں والے صرف ایک ہی مسجد میں جمعہ ادا کیا کرتے تھے پھر مسلک بریلوی کے لوگوں نے اپنی مسجد میں الگ جمعہ شروع کر دیا پھر ایک طویل عرصہ تک ایک مسجد دیوبندیوں کی اور ایک بریلویوں کی جس میں جمعہ شروع کیا تھا ہوتا رہا پھر کچھ عرصہ بعد بریلویوں کی ایک اور مسجد میں بھی جمعہ شروع کر دیا گیا۔

نیز گاؤں میں چھ مسجدیں ہیں جو آباد ہیں ایک مسجد غیر آباد ہے اور گاؤں میں دو بنات کے مدرسے ہیں  ایک میں درس نظامی اور دوسرے میں ناظرہ حفظ اور دراسات دینیہ تک کی تعلیم ہے۔ بنین کا مدرسہ جس میں چار کلا سیں ہیں اور درجہ حفظ میں تقریبا 120 لڑکے پڑھتے ہیں اور ان تمام مدارس میں رہائشی اور غیر رہائشی طلباء وطالبات پڑھتے ہیں نیز اس گاؤں میں ایک بریلوی مسلک کا مدرسہ جو تعمیری مراحل کے اختتام میں ہے اگر چہ وہاں پر مستقل ابھی کلاس لگی نہیں ایک سرکاری سکول لڑکیوں کا ہے جو میٹرک تک بچیوں کے لیےہے اور ایک بچوں کا پرائمری تک سرکاری سکول بھی ہے اور اس گاؤں کی ووٹنگ لسٹ تقریبا 1750 ہے یاد رہے کہ ووٹنگ لسٹ میں صرف اس بندے کا نام آتا  ہے جس کی عمر کم سے کم 18 سال ہو دیگر بالغین حضرات اس کے علاوہ ہیں پورے گاؤں میں بجلی اور گیس بھی موجود ہے اور اس گاؤں میں موجود دکانیں یہ ہیں:

تقریبا 10 دکانیں  کریانہ سٹور والی جن میں سے دو پر گوشت بھی دستیاب ہے اور ایک پر پیٹرول بھی،دوآٹے والی چکیاں ،دو  لکڑی کے کام والی ،دو ویلڈنگ کے کام والی، تین پنکچر والی دکانیں ہیں جن میں سے ایک دکان پر پیٹرول بھی دستیاب ہے، ایک سنار کی دکان بھی موجود ہے ، دو  عدد دکانوں سے کچھ کپڑے وغیرہ بھی مل جاتے ہیں اور ایک  عدد کلینک بھی موجود ہےنیز ضرورت کی تقریبا تمام اشیاء مثلاً گیس بجلی سبزی فروٹ و غیر ہ باآسانی مل جاتی ہیں۔

نوٹ : گاؤں کی کسی مسجد میں گاؤں کی جملہ آبادی سما نہیں سکتی۔آیا ایسی سہولیات کے حامل گاؤں میں جمعہ جائز ہے یا نہیں ؟

اگر نہیں تو پھر جو تین مسجدوں میں جمعے ہو رہے ہیں ان کا کیا حکم ہے۔

ایک ضروری وضاحت :اگر دیو بندیوں کی مسجد میں جمعہ بند کر دیا جائے اور ان کو ظہر کی نماز کا حکم دیا جائے تو یقیناً مسلک دیو بند کے لوگ بھی  بریلویوں کی مسجد میں جمعہ پڑھنے کو ترجیح دیں گے ظہر کی نماز کی بجائے کیونکہ گاؤں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو صرف جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں اس تمام صور تحال کو سامنے رکھ کر ہماری رہنمائی کی جائے.

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ گاؤں میں جمعہ جائز ہے۔

توجیہ: مذکورہ بستی  میں چونکہ تمام ضروریات کی اشیاء موجود ہیں جس کی وجہ سے مذکورہ بستی  قصبہ کے حکم میں ہے اور قصبہ میں جمعہ کی نماز شروع کرنا درست ہے۔

شامی(3/8) میں ہے:

وعبارة القهستانى: وتقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التى فيها أسواق

کفایت المفتی(3/194) میں ہے:

سوال:نماز جمعہ کا لزوم ہمارے ملک پاکستان میں کتنی بستی پر ہو سکتا ہے؟ احتیاط الظہر جائز ہے یا نہیں؟

جواب: جو بستی بڑی ہو اور اس میں کم از کم دو مسجدیں ہوں یا وہاں ضروری سامان مل جاتا ہو اس میں جمعہ پڑھنا چاہیے۔ظہر احتیاطی کوئی شرعی چیز نہیں ہے جمعہ پڑھیں یا ظہر پڑھیں دونوں پڑھنا صحیح نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved