• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قصر نماز کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ  کچھ لوگوں کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے ان لوگوں کے  رہائشی مکان اور زرعی زمینیں  بھی وہاں موجود  ہیں لیکن یہ لوگ ملکی حالات خراب ہونے کی وجہ سے ہجرت کر کے لاہور رہائش پذیر ہو گئے ہیں، اور ان میں سے  اکثر کا  وہاں (مہمند ایجنسی میں)  ذاتی مکان اور کاروبار بھی ہے۔

1۔ تو ان میں سے کچھ لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ اگر وہ چار بھائی ہیں تو ایک بھائی اپنے گھر کے کچھ افراد کو لے کر دو سال کے لیے مہمند ایجنسی کا گھر اور زمین آباد کرتا ہے  پھر دوسرا بھائی دو سال کے لیے جاتا ہے اور  پہلے والا لاہور واپس آ جاتا ہے ،اسی طرح پھر تیسرا بھائی، پھر چوتھا بھائی۔ پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں  لاہور والے بھائی اگر مہمند ایجنسی فوتگی یا شادی یا ضروری کام سے 15 دن سے کم کے لیے جائیں  تو کیا یہ وہاں قصر نماز پڑھیں گے یا پوری ؟ نیز  کیا ان کی اولاد کا بھی یہی حکم ہوگا قصر اور اتمام میں؟

2۔دوسری صورت یہ ہے کہ ایک بھائی تو مستقل مہمند ایجنسی میں ہے اور دوسرے بھائی اس کو خرچہ بھیجتے ہیں اور دوسرے بھائی مستقل لاہور میں ہیں لیکن مہمند ایجنسی کی زمین میں اور مکان میں سب  شریک ہیں ،ایسی صورت میں  لاہور والے بھائی اگر 15 دن سے کم کے لیے مہمند جائیں تو کیا یہ قصر نماز پڑھیں گے یا پوری؟

3۔تیسری صورت یہ ہے کہ ایک بھائی مستقل مہمند ایجنسی میں ہے اور وہ زرعی زمین میں کام کر کےپیداوار خود رکھتا ہےاور لاہور والوں کو کچھ نہیں دیتا اور نہ لاہور والے گاؤں والے کو کچھ دیتے ہیں لیکن لاہور والے بھائیوں  کا مہمند ایجنسی کے مکان اور زمین میں مکمل حصہ ہے تو  اس صورت میں یہ لاہور والے اگر 15 دن سے کم کے لیے مہمند جائیں  تو قصر نماز پڑھیں گے یا پوری ؟

4۔چوتھی صورت یہ ہے کہ مکان و زمین کے مالکان مستقل لاہور میں رہتے ہیں مکان و زمین آباد کرنے کے لیے نہیں جاتے اور وہ مکان و زمین کرائے پر دے رکھےہیں اس صورت میں   یہ مالکان پندرہ دن سے کم کی صورت میں قصر کریں گے یا اتمام؟

5۔پانچویں صورت یہ ہے کہ کچھ لوگ مکان وزمین نہ خود آباد کرتے ہیں نہ کرائے پر دیتے  ہیں  خود لاہور میں رہتے ہیں۔ اب مہمند جاننے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن مکان و زمین کے مالک ہیں اس صورت میں 15 دن سے کم میں قصر کریں گے یا  اتمام؟

6۔نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا وطن اصلی دو ہو سکتے ہیں؟ اور کیا وطن اصلی کے لیے بیوی بچوں کا مہمند ایجنسی میں  ہونا ضروری ہے؟  اگر کوئی بھی اس زمین  کو آباد کرے مثلا دوسرے بھائی ،چچا زاد یا کرایہ دار تو  کیا اس صورت میں بھی مہمند ایجنسی اس کا وطن اصلی ہوگا؟ جبکہ یہ خود بیوی بچوں کے ساتھ لاہور میں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1،2،3،4۔ پہلی چار صورتوں میں اگر ان چار بھائیوں نے یا ان میں سے بعض نے یا مالک مکان (جس نے گھر کرایہ پر دے رکھا ہے)گاؤں میں رہائش رکھنے کا ارادہ ختم کر دیا ہو تو جس نے رہائش رکھنے کا ارادہ ختم کر دیا وہ 15 دن کی نیت سے جائے گا تو پوری نماز پڑھے گا  اور 15 دن سے کم کی نیت سے جائے گا تو قصر کرے گا اور اگر کسی نے بھی گاؤں میں رہائش رکھنے کا ارادہ ختم نہ کیا ہو تو ان میں سے جو بھی جتنے عرصے کے لیے گاؤں جائے گا تو وہ جاتے ہی مقیم ہو جائے گا اور پوری نماز پڑھے گا نیز ان کی اولاد کا بھی یہی حکم ہے۔ البتہ اگر لڑکے بالغ ہیں  اور والد کے تابع نہیں اور انہوں نے مہمند سے رہائش ختم کرنے کی نیت کرلی ہو اگرچہ والدین نے رہائش ختم کرنے کی نیت نہ کی ہو تو  مہمند ان کا وطن اصلی نہیں رہے گا لہٰذا وہ اگر مہمند پندرہ دن سے کم کی نیت سے جائیں گے تو مسافر ہوں گے۔

بدائع الصنائع(1/103)  ميں ہے:

الأوطان ثلاثة: وطن أصلي: وهو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها.(ووطن) الإقامة: وهو أن يقصد الإنسان أن يمكث في موضع صالح للإقامة خمسة عشر يوما أو أكثر. (ووطن) السكنى: وهو أن يقصد الإنسان المقام في غير بلدته أقل من خمسة عشر يوما ۔۔۔ فالوطن الأصلي ينتقض بمثله لا غير وهو: أن يتوطن الإنسان في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها من بلدته فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا، حتى لو دخل فيه مسافرا لا تصير صلاته أربعا، وأصله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم والمهاجرين من أصحابه رضي الله عنهم كانوا من أهل مكة وكان لهم بها أوطان أصلية، ثم لما هاجروا وتوطنوا بالمدينة وجعلوها دارا لأنفسهم انتقض وطنهم الأصلي بمكة، حتى كانوا إذا أتوا مكة يصلون صلاة المسافرين، حتى قال النبي صلى الله عليه وسلم حين صلى بهم: «أتموا يا أهل مكة صلاتكم فإنا قوم سفر» ؛ ولأن الشيء جاز أن ينسخ بمثله، ثم الوطن الأصلي يجوز أن يكون واحدا أو أكثر من ذلك بأن كان له أهل ودار في بلدتين أو أكثر ولم يكن من نية أهله الخروج منها، وإن كان هو ينتقل من أهل إلى أهل في السنة، حتى أنه لو خرج مسافرا من بلدة فيها أهله ودخل في أي بلدة من البلاد التي فيها أهله فيصير مقيما من غير نية الإقامة.

الدر المختار (2/131)میں ہے:

(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما (لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه ولم يذكر وطن السكنى وهو ما نوى فيه أقل من نصف شهر لعدم فائدته۔

وفي الشامية:(قوله أو تأهله)۔۔۔ولو كان له أهل ببلدتين فأيتهما دخلها صار مقيما، فإن ماتت زوجته في إحداهما وبقي له فيها دور وعقار قيل لا يبقى وطنا له إذ المعتبر الأهل دون الدار كما لو تأهل ببلدة واستقرت سكنا له وليس له فيها دار وقيل تبقى. (قوله أو توطنه) أي عزم على القرار في وعدم الارتحال وإن لم يتأهل، فلو كان له أبوان ببلد غير مولده وهو بالغ ولم يتأهل به فليس ذلك وطنا له إلا إذا عزم على القرار فيه وترك الوطن الذي كان له قبله شرح المنية۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2 / 147)میں ہے:

وفي المحيط: ولو كان له أهل بالكوفة وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة، قيل: البصرة لا تبقى وطناً له؛ لأنها إنما كانت وطناً بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطناً له، وقيل: تبقى وطناً له؛ لأنها كانت وطناً له بالأهل والدار جميعاً، فبزوال أحدهما لايرتفع الوطن، كوطن الإقامة تبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر.

 وفي المجتبى: نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار، ثم قال: وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم، فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر

کفایہ مع فتح القدیر (2/18) میں ہے:

وفي المحیط ولو انتقل بأهله ومتاعه إلی بلد وبقي له دور وعقار في الاول، قیل بقي الاول وطنا له وإلیه أشار محمد في الکتاب حیث قال: باع داره ونقل عیاله، وقیل لم یبق وفي الاجناس قال هشام: سألت محمدًا عن کوفي أوطن بغداد وله بالكوفة دار واختار الى مكة القصرقال محمد هذا حالي وأنا أریٰ القصر إن نویٰ ترک وطنه إلا أن أبا یوسف کان یتم بها لکنه یحمل علی أنه لم ینو ترک وطنه قال الشیخ نجم الدین الزاهدي: وهذا جواب واقعة ابتلینا به وکثیر من المسلمین المتوطنین في البلاد ولهم دور وعقار في القریٰ البعیدة منها یصیفون بها بأهلهم ومتاعهم فلا بد من حفظهما أنهما وطنان له لایبطل أحدهما بالآخر

فتاویٰ شامی دوسری جگہ(2/ 741 تا 744)  میں ہے:

(و المعتبر نية المتبوع) لأنه الأصل لا التابع (كامرأة) وفاها مهرها المعجل (وعبد) غير مكاتب (و جندي) إذا يرتزق من الأمير أو بيت المال (و أجير) و أسير و غريم و تلميذ (مع زوج و مولى و أمير و مستأجر)

 و في الشامية قوله (و تلميذ) أي إذا كان يرتزق من أستاذه …. و قلت و مثله بالأولى الابن البار البالغ مع أبيه.

5۔پانچویں صورت میں چونکہ  مہمند ایجنسی جانے کا کوئی ارادہ نہیں لہٰذا  عدم ارادہ کی وجہ سے ان کا سابقہ وطن اصلی ختم ہو گیا۔ لہذا اب جب بھی وہ 15 دن سے کم کی نیت سے جائیں گے تو وہاں قصر کریں گے۔

توجیہ: وطن اصلی کے بطلان کی دو شرطیں ہیں:  (1) کسی دوسری جگہ کو وطن اصلی بنا لے۔ (2) سابقہ وطن کو ترک کرنے کی نیت کر لے۔

مذکورہ صورت میں سابقہ وطن اصلی کو مستقل ترک کرنے  کی نیت ہے اور لاہور کو بھی مستقل وطن بنا لیا ہے  لہذا سابقہ وطن اصلی باطل ہو گیاہے۔

الدر المختار (2/739) میں ہے:

(الوطن الاصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالاول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما

البحر الرائق (2/239) میں ہے:

والوطن الأصلي هو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها وهذا الوطن يبطل بمثله لا غير وهو أن يتوطن في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا حتى لو دخله مسافرا لا يتم،  قيدنا بكونه انتقل عن الأول بأهله لأنه لو لم ينتقل بهم ولكنه استحدث أهلا في بلدة أخرى فإن الأول لم يبطل ويتم فيهما

احسن الفتاویٰ (4/110) میں ہے:

’’وطن اصلی کے لیے دوسرے وطن اصلی کو مبطل قرار دیا گیا اور متون میں یہ بطلان مطلق ہے، کسی قید کے ساتھ مقید نہیں، حالانکہ دوسرا وطن اصلی علی الاطلاق پہلے کے لیے مبطل نہیں بلکہ اس صورت میں مبطل ہے جبکہ پہلے سے نقض وطنیت کرتے ہوئے دوسرے کو بھی وطن اصلی بنا لے، ورنہ اگر پہلے وطن کو حالت سابقہ پر رکھتے ہوئے دوسرے مقام پر بیوی کر لیتا ہے اور اسے بھی مستقل رہائش کے لیے تجویز کر لیتا ہے، تو پہلا وطن اصلی اس سے باطل نہیں ہو گا۔

6۔وطن اصلی دو اور دو سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں لہٰذا مذکورہ صورت میں لاہور بھی آپ لوگوں کا وطن اصلی ہے اور مہمند سے مستقل  رہائش ختم کرنے کی نیت نہیں  کی  ہو تو مہمند بھی وطن اصلی ہوگا ۔وطن اصلی ہونے  کے لیے  بیوی بچوں کا مہمند ایجنسی میں ہونا ضروری نہیں ۔

الدر المختار (2/739) میں ہے:

(الوطن الاصلي )هو موطن ولادته اوتأهله او توطنه(يبطل بمثله)اذا لم يبق له بالاول اهل فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما

في الشامية: قوله(توطنه)اي عزم علي القرار فيه وعدم الارتحال وان لم يتاهل فلو كان له أبوان ببلد غير مولده وهو بالغ ولم يتأهل به فليس ذلك وطنا له إلا إذا عزم على القرار فيه وترك الوطن الذي كان له قبله شرح المنية.

بدائع الصنائع:(1/280)ميں ہے:

الوطن الاصلی یجوز ان یکون واحدا او اکثر من ذلک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved