• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قصر نماز کی ابتداء کہاں سے ہوگی؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ :

1۔مسافر کا قصرکہاں سے شروع ہوگا؟ اس سلسلہ میں کتب فتاویٰ میں عام طور پر یہی لکھا ہوا ہے کہ مسافر اپنا علاقہ، اپنا شہر و فنائے  شہر سےتجاوز کرنے کے بعد قصرشروع کرےگا لیکن اب سوال یہ ہے کہ علاقہ اور شہر کی حد کیا ہے؟ کیا پورا شہر تجاوز کرنے کے بعد قصرشروع کرے گا،چاہے جتنا مرضی بڑا شہر ہو،پھر اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسئلہ فی الحقیقت ایسا ہی ہے تب تو قصر کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا مثلاً کراچی شہر ایک جانب سے دوسری جانب تک 100 کلومیٹر ہے  بیچ میں کوئی مزرعہ، نہر اور بساتین نہیں ہے  اور میں شہر کے ایک جانب سکونت رکھتا ہوں اور مجھے شہر کی بلکل مقابل جانب سے خارج ہو کر سفر کرنے کی ضرورت پیش آئی۔اب مجھے کیا کرنا پڑے گا آیا 100کلومیٹر کا شہر تجاوز کرنے کے بعد قصرشروع کروں گا یا کہیں اور پہلے سے؟ اس بارے میں, میں بہت الجھا ہوا ہوں۔اب تک کوئی فیصلہ نہیں ملا ،مذکورہ صورت میں کیا فتویٰ ہے اور ایسے ہی دیگر بڑے بڑے شہروں کے بارے میں کیا فتویٰ ہے؟

2۔نیز شہر کا شرعی مفہوم کیاہےجس کی آبادیوں سےنکل کربندہ مسافر بنےگا اگر شہرکے شرعی مفہوم کے اعتبار سے ایک علاقہ دس متصل شہروں پر مشتمل ہو تو کیاسارے شہروں کو کراس کرکے سفرشرعی کا آغاز ہوگا یا اپنے شہر سے مثلا میانوالی ضلع میں پپلاں علو والی دوآبہ کندیاں خانقاہ سراجیہ شرعی اعتبار سے سب پر اگر شہرکی تعریف فٹ آجائے تو اب کندیاں سے نکلنے والا کندیاں سے نکل کر مسافر بنےگا یا متصل شہر میانوالی سے بھی نکل کر مسافر ہو گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔جس شہر یا گاؤں کا وہ باشندہ ہے اس شہر یا گاؤں  کی متصل (آپس میں  ملی ہوئی) آبادی سے نکلنے کے بعد قصر کرے گا، لہذاجو صورت آپ نے ذکر کی ہے اس میں بھی آپ شہر کی متصل آبادی سے نکلنے کے بعد قصر کریں گے  ۔

2۔  جو آبادی  آپس میں ملی ہوئی  ہو وہ شرع کی نظر میں ایک آبادی ہے خواہ انتظامی طور پر انہیں الگ الگ شہر یا آبادی شمار کیا جاتا ہو اور جو آبادیاں آپس میں ملی ہوئی نہ ہوں وہ الگ الگ بستیاں ہوں گی خواہ انہیں کوئی ایک مشترکہ نام بھی دیا جاتا ہو۔ سوال میں مذکورہ آبادیاں ہماری معلومات کے  مطابق الگ الگ بستیاں ہیں اس لیے کسی ایک بستی سے نکل جانے کے بعد آدمی مسافر بن جائے گا۔

المعجم الاوسط(رقم الحديث:4562) میں ہے:

عن  أبي هريرة قال: سافرت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم  ومع أبي بكر وعمر رضي الله عنهماكلهم صلى ‌ من حين ‌يخرج ‌من ‌المدينة إلى أن يرجع إليها ركعتين في المسير والمقام بمكة

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں ؛ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ  اور حضرت  ابوبکر کے ساتھ اور حضرت عمر کے ساتھ سفر کیا۔ان سب نے مدینہ(منورہ) سے نکلنے کے وقت  سے اس میں واپس  داخل ہونے تک چلنے کے دوران بھی اور مکہ ( مکرمہ) میں (پندرہ دن سے کم) قیام کے دوران بھی دو دو رکعت نماز پڑھی۔

مصنف ابن ابی شیبہ(رقم الحدیث:8253) میں ہے:ٍ

‌ عن أبي حرب بن أبي الأسود أن ‌علياً ‌خرج ‌من ‌البصرة فصلى أربعاً، وقال: إنّا لو جاوزنا هذا الخص لصلَّينا ركعتين (ابن ابي شيبه)

ترجمہ: ابو حرب  سے روایت ہے کہ  حضرت علیؓ بصرہ سے (سفر پر) نکلنے لگے تو رستے میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں ، پھر فرمایا: اگر ہم وہ( سامنے نظر آنے والا) چھپر پار کر جاتے تو (ہم آبادی سے باہر ہوجاتے اور صرف) دو رکعت پڑھتے۔

اعلاءالسنن (7/310) میں ہے:

قوله : ” عن أبي هريرة إلخ . قلت : محل الترجمة منه قوله: “كلهم صلى من حين يخرج من المدينة، ففيه دلالة ظاهرة على معنى الباب أن القصر ابتداءه من حين يخرج المسافر من بلده، والخروج من البلد إنما يتحقق بمفارقة بيوته وعمرانه، والله تعالى أعلم.

ترجمہ:” ان میں سے ہر ایک نے تب نماز پڑھی جب مدینہ سے باہر نکلے “اس جملہ میں صاف رہنمائی ہے باب کے مقصود کی طرف کہ قصر کی ابتداء تب ہوگی جب مسافر شہر سے باہر جائے گا اور شہر سے نکلنا اس وقت متحقق ہوگا جب شہر کے گھروں اور عمارتوں سے جدا ہوگا۔

بدائع الصنائع(1/93) میں ہے:

فالذي يصير المقيم به مسافرا ‌نية ‌مدة ‌السفر والخروج من عمران المصر

ترجمہ: مقیم جن چیزوں سے مسافر بنتا ہے وہ یہ ہیں: (1) مدت سفرکی نیت اور  (2) شہر کی آبادی سے باہر نکلنا۔

بدائع الصنائع (1/94) میں ہے:

وفعل السفر لا يتحقق إلا بعد ‌الخروج ‌من ‌المصر فما لم يخرج لا يتحقق قران النية بالفعل فلا يصير مسافرا

(وفيه ايضاً )والثالث: الخروج من عمران المصر فلا يصير مسافرا ‌بمجرد ‌نية ‌السفر ما لم يخرج من عمران المصر

ترجمہ: سفر کے فعل کا تحقق  صرف اسی وقت ہوتا ہے جب آدمی شہر سے باہر نکل جائے۔جب تک وہ شہر کی آبادی سے باہر نہیں  نکلتا ، نیت کا فعل کے ساتھ جوڑ نہیں ہوتا۔ اس لیے آدمی مسافر نہیں بنتا۔

بدائع الصنائع (1/94) میں ہے:

والثالث: الخروج ‌من ‌عمران ‌المصر فلا يصير مسافرا بمجرد نية السفر ما لم يخرج ‌من ‌عمران ‌المصر

ترجمہ: مسافر بننے کے لیے تيسری شرط شہر سے باہر نکلنا ہے، لہذا جب تک شہر کی آبادی سے باہر نہیں نکلے گا  محض سفر کی نیت سے مسافر نہیں بنے گا۔

فتاویٰ محمودیہ (7/477)

آبادی دیکھنے میں اگر متصل ہو تو محض کمیٹی الگ الگ ہونے کی وجہ سے ان کو دو  بستیاں نہیں کہیں گے۔

بہشتی زیور(247) میں ہے:

جو کوئی تین منزل چلنے کا قصد کر کے  نکلے وہ شریعت کے قاعدے سے مسافر ہے۔ جب  اپنے شہر کی آبادی  سے باہر  ہوگیا تو شریعت  کی رو سے وہ مسافر بن گیا اور جب تک  آبادی کے اندر اندر چلتا رہا  تب تک مسافر نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved