- فتوی نمبر: 7-220
- تاریخ: 08 فروری 2015
- عنوانات: عبادات > منتقل شدہ فی عبادات
استفتاء
میں مدرسہ جامعہ دار التقوی میں پڑھتا ہوں، میرا تعلق ظفر وال ضلع نارووال سے جو کہ لاہور سے تقریباً 100 کلو میٹر سے بھی زیادہ دور ہے، مدرسے کی طرف سے مجھے ایک ہال میں رہائش ملی ہوئی ہے، اس ہال میں میرے علاوہ اور بھی 20 /25 لڑکے رہتے ہیں، مدرسے کی طرف سے سامان وغیرہ رکھنے کے لیےالماری بھی ملی ہوئی ہے اور میرا اپنا صندوق بھی ہے، جس میں میرا متفرق سامان ہے، ہال کی چابی میرے پاس نہیں ہے، میں اس مدرسہ میں پندرہ دن کی نیت کر کے قیام کر چکا ہوں، اس ساری صورتحال میں میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھے اپنے گھر سے لاہور مدرسہ میں آتے ہوئے مقیم ہونے کے لیے ہر دفعہ پندرہ دن کی نیت کرنی پڑے گی یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ کو لاہور میں مقیم ہونے کے لیے ہر دفعہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرنی پڑے گی۔ کیونکہ وطن اقامت کے باقی رہنے کے ضروری ہے کہ آدمی کا سازو سامان ایسے کمرے میں ہو کہ جس کا تالہ چابی اس کے اپنے اختیار میں ہو۔
“بقاء وطن اقامت کا حکم اس صورت میں ہے جبکہ وہاں اہل و عیال چھوڑ کر گیا ہو، یا سامان اپنے مقبوض مکان میں رکھ کر گیا ہو، اور اگر سامان کسی کے پاس ودیعت رکھ کر گیا تو وطن اقامت باطل ہو جائے گا، اس لیے کہ اسے عرف میں سکونت نہیں کہا جاتا۔” (احسن الفتاویٰ: 3/ 112)
كما قال العلامة ابن عابدين قوله (حلف لا يساكن فلاناً) و كان ساكنا معه فإن أخذ في النقلة و هي ممكنة و إلا حنث قال محمد رحمه الله فإن كان وهب له المتاع و قبضه منه و خرج من ساعته و ليس من رائه العود فليس بساكن و كذلك إن أودعه المتاع أو أعاره ثم خرج لا يرد العود. (البحر الرائق: 4/ 517) ۔۔۔۔۔۔فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved