• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قاء اقامت کے لیے مخصوص مکان یا کمرہ میں سامان رکھنے کی شرط

استفتاء

ایک آدمی مثلاً****  کا رہنے والا ہے اور وہ ملازمت کے سلسلے میں **رہائش پذیر ہے۔ (**سے**تک کا سفر اتنا بنتا ہے جس سے آدمی مسافر بن جاتا ہے)** کی روٹین یہ ہے کہ وہ ہر دوسری اتوار کو اپنے گھر** جاتا ہے (اس کی یہ صورت ہے کہ وہ پیر کو گھر سے آتا ہے اور آمد کے تیرہویں دن ہفتہ کی شام کو دوبارہ**چلا جاتا ہے)۔ جس دن ** آتا ہے تو اس دن پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت بھی نہیں ہوتی۔ سوال طلب بات یہ ہے کہ

1۔  کیا اس صورت میں**مسافر بن جاتا ہے؟ یا پھر یہ کہ چونکہ وہ ملازمت کے لیے**میں رہائش پذیر ہے اس لیے وہ مقیم ہی کے حکم میں ہے؟

2۔ اس بات کی بھی وضاحت کر دیں کہ اگر** مسافر ہے اور اس کی روٹین وہی ہے جو اوپر مذکور ہے تو اگر وہ** میں قیام کے دوران اقامت کی نیت کرتا ہے کیا شریعت اس کی اس نیت کا اعتبار کرتے ہوئے اس پر مقیم ہونے کا حکم لگائے گی یا پھر اس کی روٹین کا اعتبار ہوتے ہوئے اسے مسافر قرار دے گی اور اس کی نیت لغو ہو گی؟

نوٹ:** ایک آدھ دفعہ **میں کم از کم پندرہ دن کا قیام کر چکا ہے اور نیت بھی تھی پندرہ دن ٹھہرنے کی۔ یہاں کے رہائشی سیٹ اپ نہیں اس کے پاس بستر اور کپڑے وغیرہ ہیں، مستقبل میں** سے جانے کا ارادہ ہے، لیکن کب یہ طے نہیں۔ نیز رہائش ادارے کی طرف سے ایک بڑے ہال میں ہے جس میں اور بھی کئی ملازم رہائش پذیر ہیں اور سامان رکھنے کے لیے کوئی الماری بھی نہیں بلکہ سب اپنے اپنے بیگوں میں سامان رکھتے ہیں اور ہال کی چابی ہر آدمی کے پاس نہیں اور ان کے پاس بھی چابی نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں **جب ** سے** آئے گا تو مسافر ہی رہے گا۔ کیونکہ** اگرچہ ایک آدھ مرتبہ **میں پندرہ دن قیام کر چکا ہے اور اس کا کچھ نہ کچھ سازو سامان بھی** میں ہے لیکن یہ سازو سامان ایسے مکان میں نہیں کہ جس کا تالہ چابی **کے اپنے قبضے میں ہو۔ جبکہ وطن اقامت کی بقاء کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ سازو سامان ایسے مکان میں ہو کہ جس کا تالہ چابی بھی آدمی کے اپنے قبضے اور اختیار میں ہو۔

چنانچہ احسن الفتاویٰ (3/ 112) میں ہے:

“بقاء وطن اقامت اس صورت میں ہے جبکہ وہاں اہل و عیال چھوڑ کر گیا ہو یا سامان اپنے مقبوض جگہ میں رکھ کر گیا ہو۔”

خیر الفتاویٰ میں ہے:

“واضح رہے کہ بقائے ثقل سے مراد یہ ہے کہ سامان پر اس کا قبضہ بھی باقی ہو۔” (2/ 701)

مسائل بہشتی زیور میں ہے:

“اگر کوئی شخص وطن اقامت میں اپنی رہائش کے لیے کمرہ یا مکان لے لے جس میں وہ اپنا سامان رکھے پھر کبھی سامان وغیرہ کو تالہ لگا کر سفر شرعی پر نکل جائے خواہ اپنے وطن اصلی چلا جائے یا کسی اور شہر چلا جائے لیکن اس کی نیت اپنے اس وطن اقامت میں واپس آنے کی ہے ۔۔۔۔ تو یہ واپس آ کر پوری نماز پڑھے گا۔” (1/ 256)

2۔ مذکورہ روٹین کے ہوتے ہوئے** کی اقامت کی نیت کا اعتبار نہ ہو گا اور یہ نیت لغو ہو گی اور اس کی وجہ سے وہ مقیم نہیں بنے گا، بلکہ بدستور مسافر ہی رہے گا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved