• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قیمت فروخت میں تفاوت کی صورت میں مال تجارت کی زکوٰۃ نکالنے کا طریقہ

استفتاء

ہماری دکان گلبرگ میں واقع ہے جہاں ہم دلہن کے عروسی جوڑے بیچتے ہیں۔ یہ جوڑے ہم خود نہیں تیار کرتے بلکہ مختلف کاریگروں سے خریدتے ہیں اور دکان کی ڈسپلے پر سجا کر لٹکا دیتے ہیں۔

بعض جوڑے فوراً بک جاتے ہیں اور بعض جوڑے ایسے ہوتے ہیں جو پانچ سال بعد بکے۔ پھر قیمت فروخت میں بے حد تفاوت ہوتا ہے مثلاً ایک خاص قسم کا جوڑا پچاس ہزار میں خریدتے ہیں۔ یہ جوڑا ہم نے نوے ہزار روپے میں بیچا، ایک گاہک کو پانچ لاکھ میں بھی فروخت کیا، پھر کبھی ہمیں لگتا ہے کہ شاید نہ  بیچ سکیں تو کسی دوسرے تاجر کو کہتے ہیں کہ ہم سے نہیں بک رہا تم بیچ لو! تو مذکورہ جوڑا ایک تابر نے 35000 میں خرید لیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ قیمت فروخت کا تعین ہمارے لیے ناممکن ہے۔ اس لیے ہم اپنے مال تجارت کی زکوٰۃ قیمتِ خرید کے حساب سے نکالتے ہیں۔ کیا اس کی گنجائش ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مالِ تجارت کی زکوٰۃ نکالنے کا اصل ضابطہ تو یہ ہے کہ قیمت فروخت کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی (لأنه أنفع للفقراء)۔ اور اگر تخفیف کی مختلف ریٹ ہیں تو ان کے اعتبار سے ایک اوسط قیمت فروخت مقرر کر لی جائے۔ البتہ اگر کسی کاروبار میں قیمت فروخت میں بہت تفاوت ہو اور قیمت خرید سے کم میں بھی بیچنا پڑتا ہو اور قیمت فروخت کے حساب میں خاصی تشویش ہو تو قیمتِ خرید کے حساب سے زکوٰۃ دینے کی گنجائش ہو گی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہم کی رائے:

جب تک آیٹم مثل DEAD کے نہ  ہو جائے اس وقت تک اس کو نفع والی سمجھیں گے اور قیمت فروخت کا اعتبار کریں گے۔

آپ نے جس قیمت خرید کا اعتبار کیا ہے وہ اس وقت ہو گا جب کبھی نفع ہو اور کبھی نقصان ہو۔ اگر کبھی نقصان اور عام طور سے نفع ہو تو  اس نفع کی اوسط لگائیں گے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved