- فتوی نمبر: 28-353
- تاریخ: 26 نومبر 2022
- عنوانات: حظر و اباحت > عملیات، تعویذات اور جادو و جنات
استفتاء
1۔میرا سوال یہ ہے کہ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ قبلہ کی طرف پاؤں نہیں کرنے چاہئیں حالانکہ نماز کی حالت میں سجدے کے وقت پاؤں کے انگوٹھے قبلہ کی طرف ہوتے ہیں۔
2۔ اکثر لوگوں کا ماننا ہے کہ قبرستان کی طرف پاؤں کر کے نہیں سونا چاہیے؟
ان مسائل کے بارے میں آگاہی فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ قبلہ کی طرف پاؤں کرنے کا مطلب ہے کہ پاؤں کا نچلا حصہ قبلہ کی طرف کیا جائے یا پھیلایا جائے جبکہ نماز میں قبلہ کی طرف پاؤں کے انگوٹھے کا نچلا حصہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے سامنے کا حصہ قبلہ کی طرف کیا جاتا ہے ۔اس لیے نماز میں پاؤں کے انگوٹھے سے قبلہ کی بے ادبی نہیں ہوتی جبکہ سوتے وقت قبلہ کی طرف پاؤں کے نچلے حصہ کو پھیلانے سے قبلہ کی بے ادبی ہوتی ہے۔
2۔ قبرستان کی طرف پاؤں کرنا منع نہیں ہے۔
در مختار (2/516) میں ہے:
كما كره ( مد رجليه في نوم أو غيره إليها ) أي عمدا لأنه إساءة أدب قاله منلا باكير
شامی میں ہے:
قوله ( أي عمدا ) أي من غير عذر أما بالعذر أو السهو فلا ط
قوله ( لأنه إساءة أدب ) أفاد أن الكراهة تنزيهية ط لكن قدمنا عن الرحمتي في باب الاستنجاء أنه سيأتي أنه بمد الرجل إليها ترد شهادته قال وهذا يقضتي التحريم فليحرر
تقریرات رافعی (1/610) میں ہے:
قوله: (وهذا يقتضي التحريم فليحرر): ما سيأتي محمول علي ما إذا اعتاد مد الرجل إليها، فلا تقبل شهادته لأن الصغيرة تكون كبيرة بالمداومة فلا ینافی ما هنا من كراهة التنزيه.
کفایت المفتی (3/212) میں ہے:
قبلہ کی طرف پاؤں کر کے سونا خلافِ ادب ہے۔
شامی (2/258) میں ہے:
ويؤيده ما قلناه إن المحقق ابن الهمام قال في زاد الفقير ومنها أي من سنن الصلاة توجيه أصابع رجليه إلى القبلة ووضع الركبتين واختلف في القدمين ا هـ فهذا صريح فيما قلناه حيث جزم بأن توجيه الأصابع سنة.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved