• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قبلہ سے 13 ڈگری رخ منحرف ہونے کی صورت میں نماز کا حکم

  • فتوی نمبر: 29-94
  • تاریخ: 06 جولائی 2023

استفتاء

میرا نام *** اعوان ہے میں چکری راجگان تحصیل و ضلع جہلم سے ہوں مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے گاؤں کی مسجد میں قبلہ کا مسئلہ بنا ہے ہماری مسجد 80 سال پرانی ہے بروز جمعرات کو سروے آف پاکستان والے آئے تھے ان سے قبلہ چیک کروایا تھا اب مسئلہ یہ ہے کہ پہلے قبلہ تقریباً 270 ڈگری پر تھا لیکن اب 257 ڈگری پر ہے سروے آف پاکستان والے کہتے ہیں کہ قبلہ 257 ڈگری پر ہے جس سے بہت زیادہ اختلاف ہورہا ہے۔ ایک اور بات ہے ، وہ یہ کہ جب ہم موبائل فون سے چیک کریں تو وہ قبلہ 270  ڈگری پر بتاتا ہے لیکن سروے آف پاکستان والوں نے اپنی مشینوں مثلا (سٹلائٹ) سے چیک کر کے بتایا کہ قبلہ 257 ڈگری پر ہے ۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا

وضاحت مطلوب ہے:  (1)مسجد کا  رُخ اور موبائل پر قبلے کا رُخ ایک ہی ہے یا مسجد کا رُخ الگ ہے اور موبائل پر رُخ الگ ہے؟(2)سٹلائٹ مشین سے جو فرق آرہا ہے وہ عین  قبلہ سے ہے یا جہت قبلہ سے؟

جواب وضاحت: (1)موبائل وہی درجہ بتاتا ہے جس درجے پر پہلے مسجد بنی ہوئی ہے مطلب 270۔

(2)257 پرعین قبلہ ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو لوگ کعبہ سے دور ہیں ان کے لیے نماز میں عین قبلہ کی طرف رُخ کرنا ضروری نہیں بلکہ جہت قبلہ کی طرف رُخ کرنے سے بھی ان کی نماز درست شمار ہوگی۔ ہمارے علاقوں میں عین قبلہ سے 45 ڈگری شمال کی طرف اور 45 ڈگری جنوب کی طرف جہت قبلہ ہے لہٰذا جب تک عین قبلہ سے 45 ڈگری سے زائد شمال کی طرف یا 45 ڈگری سے زائد جنوب کی طرف انحراف نہ ہو اس وقت تک نماز کو درست کہا جائے گا۔ مذکورہ صورت میں عین قبلہ سے جو فرق ہے وہ صرف 13 ڈگری کا ہے جبکہ اگر 45 ڈگری تک فرق بھی ہوتا تو نماز درست ہوتی لہٰذا مذکورہ صورت میں بدرجہ اولیٰ نماز درست ہوگی۔

رد المحتار (135,136/2) میں ہے:

ثم اعلم أنه ذكر في المعراج عن شيخه أن جهة الكعبة هي الجانب الذي إذا توجه إليه الإنسان يكون مسامتا للكعبة أو هوائها تحقيقا أو تقريبا، ومعنى التحقيق أنه لو فرض خط من تلقاء وجهه على زاوية قائمة إلى الأفق يكون مارا على الكعبة أو هوائها. ومعنى التقريب أن يكون منحرفا عنها أو عن هوائها بما لا تزول به المقابلة بالكلية، بأن يبقى شيء من سطح الوجه مسامتا لها أو لهوائها. وبيانه أن المقابلة في مسافة قريبة تزول بانتقال قليل من اليمين أو الشمال مناسب لها، وفي البعيدة لا تزول إلا بانتقال كثير مناسب لها فإنه لو قابل إنسان آخر في مسافة ذراع مثلا تزول تلك المقابلة بانتقال أحدهما يمينا بذراع وإذا وقعت بقدر ميل أو فرسخ لا تزول إلا بمائة ذراع أو نحوها، ولما بعدت مكة عن ديارنا بعدا مفرطا تتحقق المقابلة إليها في مواضع كثيرة في مسافة بعيدة، فلو فرضنا خطا من تلقاء وجه مستقبل الكعبة على التحقيق في هذه البلاد ثم فرضنا خطا آخر يقطعه على زاويتين قائمتين من جانب يمين المستقبل وشماله لا تزول تلك المقابلة والتوجه بالانتقال إلى اليمين والشمال على ذلك الخط بفراسخ كثيرة، فلذا وضع العلماء القبلة في بلاد قريبة على سمت واحد اه. ونقله في الفتح والبحر وغيرهما وشروح المنية وغيرها، وذكره ابن الهمام في زاد الفقير. وعبارة الدرر هكذا: وجهتها أن يصل الخط الخارج من جبين المصلي إلى الخط المار بالكعبة على استقامة بحيث يحصل قائمتان. أو نقول: هو أن تقع الكعبة فيما بين خطين يلتقيان في الدماغ فيخرجان إلى العينين كساقي مثلث، كذا قال النحرير التفتازاني في شرح الكشاف، فيعلم منه أنه لو انحرف عن العين انحرافا لا تزول منه المقابلة بالكلية جاز، ويؤيده ما قال في الظهيرية: إذا تيامن أوتياسر تجوز لأن وجه الإنسان مقوس لأن عند التيامن أو التياسر يكون أحد جوانبه إلى القبلة اهـ كلام الدرر، وقوله في الدرر على استقامة متعلق بقوله يصل لأنه لو وصل إليه معوجا لم تحصل قائمتان بل تكون إحداهما حادة والأخرى منفرجة كما بينا.

فتاویٰ خیریہ (1/81) میں ہے

(سئل) و من القواعد الفلکیة اذا كان الانحراف عن مقتضى الادلة اكثر من خمس و اربعين درجة يمينة او يسرة يكون ذلك الانحراف خارجا عن جهة الربع الذى فيه مكة المشرفة من غير أشكال…. فهل هذه المحاريب التى انحرافها كثير فاحش يجب الانحراف فيها يسرة الى جهة مقتضى الادلة والحالة ما ذكرنا ام لا و اذا قلتم يجب فهل اذا عاند شخص و صلى فى هذه المحاريب بعد اثبات ما ذكرنا تكون صلوته فاسدة الخ

(اجاب) حيث زالت بالانحراف المذكور المقابلة بالكلية بحيث لم يبق شيء من سطح الوجه مسامتا للكعبة عدم الاستقبال المشروط لصحة الصلوة بالاجماع و اذا عدم الشرط عدم المشروط

مسائل بہشتی زیور (139,140/1) میں ہے:

جو شخص بیت اللہ شریف کے سامنے ہو اس کے لیے عین کعبہ کا استقبال فرض ہے اور جو اس سے غائب ہو اس کے ذمہ جہت کعبہ کا استقبال ہے عین کعبہ کا نہیں ۔جہت قبلہ کے استقبال کا مطلب یہ ہے کہ ایک خط مستقیم ہو جو کعبہ پر گزرتا ہوا جنوب و شمال کی سمت میں ہو اور نمازی کے وسط پیشانی سے ایک خط مستقیم نکل کر اس پہلے خط سے اس طرح تقاطع کرے(یعنی اس طرح دونوں ایک دوسرے کو کاٹیں ) کہ اس سے تقاطع کے موقع پر دو زاویہ قائمہ بن جائیں ۔ وہ قبلہ مستقیم ہے۔ اور اگر نمازی اتنا منحرف ہو کہ اس کی وسط پیشانی سے نکلنے والا خط تقاطع کرکے زاویہ قائمہ پیدا نہ کرے بلکہ حادہ (Acute) یا منفرجہ (Obtuse) پیدا کرے لیکن وسط پیشانی کو چھوڑ کر پیشانی کے اطراف میں کسی طرف سے نکلنے والا خط زاویہ قائمہ پیدا کردے تو وہ انحراف قلیل ہے اس سے نماز صحیح ہو جائے گی۔ اور اگر پیشانی کی کسی طرف سے بھی ایسا خط نہ نکل سکے جو خط مذکورہ پر زاویہ قائمہ پیدا کردے تو وہ انحراف کثیر ہے اس سے نماز نہ ہوگی۔ اور علمائے ہیئت و ریاضی نے قلیل و کثیر انحراف کی تعیین اس طرح کی ہے کہ پینتالیس درجہ تک انحراف ہو تو قلیل ہے اس سے زائد ہو تو کثیر اور مفسد نماز ہے۔اس کی آسان تعبیر یہ ہے کہ انسان کے چہرہ کا کوئی ذرا سا ادنیٰ حصہ خواہ وسط چہرہ ہو یا دائیں بائیں جانب کا، بیت اللہ  کے کسی ذرا سے حصے کے ساتھ مقابل ہو جائے اور فن ریاضی کی اصطلاحی عبارت میں یہ ہے کہ عین کعبہ سے پینتالیس درجہ تک بھی انحراف ہو جائے تو استقبال فوت نہیں ہوتا اور نماز صحیح ہو جاتی ہے۔ اس سے زائد انحراف ہو تو استقبال فوت ہو جاتا ہے اور نماز فاسد ہو جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved