- فتوی نمبر: 28-245
- تاریخ: 13 مارچ 2023
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز کی شرطوں کا بیان
استفتاء
مسجد بناتے وقت قبلہ کی سمت متعین کرنے میں غلطی ہوجائے اور مسجد بن جانے کے بعد اس کا ادراک ہواور اصل سمت کا پتہ چل جائے تو اس صورت میں قبلہ کی سمت سے بلا کراہت کتنا انحراف کرنے کی گنجائش موجود ہے؟اور کن صورتوں میں قبلہ سے انحراف جائز ہے، اس مسئلہ پر تفصیلی رہنمائی درکار ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں 45ڈگری تک کے انحراف کی گنجائش ہے اس سے زیادہ کی نہیں۔
رد المحتار (2/135،136) میں ہے:
ثم اعلم أنه ذكر في المعراج عن شيخه أن جهة الكعبة هي الجانب الذي إذا توجه إليه الإنسان يكون مسامتا للكعبة أو هوائها تحقيقا أو تقريبا، ومعنى التحقيق أنه لو فرض خط من تلقاء وجهه على زاوية قائمة إلى الأفق يكون مارا على الكعبة أو هوائها. ومعنى التقريب أن يكون منحرفا عنها أو عن هوائها بما لا تزول به المقابلة بالكلية، بأن يبقى شيء من سطح الوجه مسامتا لها أو لهوائها. وبيانه أن المقابلة في مسافة قريبة تزول بانتقال قليل من اليمين أو الشمال مناسب لها، وفي البعيدة لا تزول إلا بانتقال كثير مناسب لها فإنه لو قابل إنسان آخر في مسافة ذراع مثلا تزول تلك المقابلة بانتقال أحدهما يمينا بذراع وإذا وقعت بقدر ميل أو فرسخ لا تزول إلا بمائة ذراع أو نحوها، ولما بعدت مكة عن ديارنا بعدا مفرطا تتحقق المقابلة إليها في مواضع كثيرة في مسافة بعيدة، فلو فرضنا خطا من تلقاء وجه مستقبل الكعبة على التحقيق في هذه البلاد ثم فرضنا خطا آخر يقطعه على زاويتين قائمتين من جانب يمين المستقبل وشماله لا تزول تلك المقابلة والتوجه بالانتقال إلى اليمين والشمال على ذلك الخط بفراسخ كثيرة، فلذا وضع العلماء القبلة في بلاد قريبة على سمت واحد اه. ونقله في الفتح والبحر وغيرهما وشروح المنية وغيرها، وذكره ابن الهمام في زاد الفقير. وعبارة الدرر هكذا: وجهتها أن يصل الخط الخارج من جبين المصلي إلى الخط المار بالكعبة على استقامة بحيث يحصل قائمتان. أو نقول: هو أن تقع الكعبة فيما بين خطين يلتقيان في الدماغ فيخرجان إلى العينين كساقي مثلث، كذا قال النحرير التفتازاني في شرح الكشاف، فيعلم منه أنه لو انحرف عن العين انحرافا لا تزول منه المقابلة بالكلية جاز، ويؤيده ما قال في الظهيرية: إذا تيامن أوتياسر تجوز لأن وجه الإنسان مقوس لأن عند التيامن أو التياسر يكون أحد جوانبه إلى القبلة اهـ كلام الدرر، وقوله في الدرر على استقامة متعلق بقوله يصل لأنه لو وصل إليه معوجا لم تحصل قائمتان بل تكون إحداهما حادة والأخرى منفرجة كما بينا.
امداد الاحکام (1/463،464) میں ہے:
سوال : اسلامی ملکوں سے دور دراز ایک جزیرہ میں تاجر مسلمانوں کی ایک جماعت نے باہم چندہ سے ایک مسجد تعمیر کی، تعمیر کے منتظم نے غلطی سے مسجد کا رخ قبلہ کی سمت سے تقریبا بیس درجے پھرا ہوا رکھا۔تعمیر اسی شکل پر پوری ہوگئی ، اس کے بعد جاننے والوں نے بتایا کہ مسجد میں قبلہ کا رخ غلط ہے ،
پس کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ :
(۱) در صورتیکہ مسجد کا سرمایہ بھی اس قدر ہو کہ دوبارہ صحیح رخ پر مسجد کو بنایا جا سکتا ہےنیزوہاں کے مسلمان بھی اس کے لئے تیار ہوں کہ دوبارہ چندہ کر کے مسجد کو قبلہ کےٹھیک رخ پر بنایا جائے (الف) کیا مسجد کو اسی حال پر رکھا جائے یا (ب) قبلہ کے رخ کو درست کر کے دوبارہ بنایا جائے ؟ (۲) موجودہ تعمیر میں صرف صفوں کو صحیح رخ پر بچھا کر صحیح رخ پڑھی جائے ، یا صحیح سمت قبلہ جانتے ہوئے بھی اسی غلط رُخ پر نماز ادا کی جائے ، جان بوجھ کر غلط رخ پر نماز پڑھنے والے کا کیا حکم ہے؟(۳) اگر امام صحیح رخ جانتے ہوئے اسی غلط رخ پر نماز پڑھے اور جاننے والا مقتدی خود اپنا رخ صحیح کر لے تو اس مقتدی کا اور اس کی نماز کا شریعت میں کیا حکم ہے؟(۴) تعمیر کا منتظم اپنی غلطی پر اصرار کرتے ہوئے اگر مسجد کو دوبارہ تعمیر کرنے سے روکے اور صفوں کو صحیح رخ پر بچھا کر ٹھیک سمت پر نماز پڑھنے سے بھی منع کرے، تو ایسا شخص متولی ومنتظم ِ مسجد بنانے کے قابل ہے یا نہیں ؟ اور اس کا حکم اس معاملے میں مانا جائے یا نہیں ؟ (۵) اگر امام مسجد میں اس متولی ومنتظم کو خوش کرنے کے لیے جان بوجھ کر اسی غلط رخ پر نماز پڑھائے ، اور بعض مقتدیوں کے منع کرنے بلکہ قطب نما ونقشہ آلات دکھا کر صحیح رخ سمجھانے کے باوجود باز نہ آئے تو ایسا شخص امام بنانے کے قابل ہے یا نہیں؟ اگر اس کا اقتداء درست ہے تو اس وقت مقتدی کو امام کے غلط رخ پر کھڑا ہونا چاہیے یا صحیح پر؟
الجواب: یہ سب سوالات اس واسطے پیدا ہوئے ہیں کہ اس فرق کو صحتِ صلوٰۃ کا منافی سمجھا گیا، حالانکہ اتنا فرق ہوتے ہوئے نماز بالکل درست ہے ، پس اختلاف کی ضرورت نہیں ، اسی رخ پر بلا شبہ نماز پڑھتے رہیں، اور اگر کبھی بالاتفاق درست کرنا چاہیں تب بھی مسجد کا سرمایہ اس میں نہ لگایا جاوے لانه ليس بضرورة ، البتہ اگر مستقل چندہ کرلیں تو چنداں مضائقہ نہیں ۔
مسائل بہشتی زیور (1/139،140) میں ہے:
جو شخص بیت اللہ شریف کے سامنے ہو اس کے لیے عین کعبہ کا استقبال فرض ہے اور جو اس سے غائب ہو اس کے ذمہ جہت کعبہ کا استقبال ہے عین کعبہ کا نہیں ۔جہت قبلہ کے استقبال کا مطلب یہ ہے کہ ایک خط مستقیم ہو جو کعبہ پر گزرتا ہوا جنوب و شمال کی سمت میں ہو اور نمازی کے وسط پیشانی سے ایک خط مستقیم نکل کر اس پہلے خط سے اس طرح تقاطع کرے(یعنی اس طرح دونوں ایک دوسرے کو کاٹیں ) کہ اس سے تقاطع کے موقع پر دو زاویہ قائمہ بن جائیں ۔ وہ قبلہ مستقیم ہے۔ اور اگر نمازی اتنا منحرف ہو کہ اس کی وسط پیشانی سے نکلنے والا خط تقاطع کرکے زاویہ قائمہ پیدا نہ کرے بلکہ حادہ (Acute) یا منفرجہ (Obtuse) پیدا کرے لیکن وسط پیشانی کو چھوڑ کر پیشانی کے اطراف میں کسی طرف سے نکلنے والا خط زاویہ قائمہ پیدا کردے تو وہ انحراف قلیل ہے اس سے نماز صحیح ہو جائے گی۔ اور اگر پیشانی کی کسی طرف سے بھی ایسا خط نہ نکل سکے جو خط مذکورہ پر زاویہ قائمہ پیدا کردے تو وہ انحراف کثیر ہے اس سے نماز نہ ہوگی۔ اور علمائے ہیئت و ریاضی نے قلیل و کثیر انحراف کی تعیین اس طرح کی ہے کہ پینتالیس درجہ تک انحراف ہو تو قلیل ہے اس سے زائد ہو تو کثیر اور مفسد نماز ہے۔اس کی آسان تعبیر یہ ہے کہ انسان کے چہرہ کا کوئی ذرا سا ادنیٰ حصہ خواہ وسط چہرہ ہو یا دائیں بائیں جانب کا، بیت اللہ کے کسی ذرا سے حصے کے ساتھ مقابل ہو جائے اور فن ریاضی کی اصطلاحی عبارت میں یہ ہے کہ عین کعبہ سے پینتالیس درجہ تک بھی انحراف ہو جائے تو استقبال فوت نہیں ہوتا اور نماز صحیح ہو جاتی ہے۔ اس سے زائد انحراف ہو تو استقبال فوت ہو جاتا ہے اور نماز فاسد ہو جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved