• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قسطوں پر کاروبار کی ایک صورت

استفتاء

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم انسٹالمنٹ کا کاروبار کرتے ہیں یعنی قسطوں پر اشیاء فروخت کرتے ہیں عام طور پر اشیاء میں سونا ،موٹر سائیکل ،ایل سی ڈی اور دیگر  اشیاء ہوتے ہیں ۔کبھی کبھی کوئی شخص ہم سے موٹر سائیکل قسطوں پر خریدنا چاہتا ہے ظاہر ہے کہ قسطوں پر کسی چیز کو لینا نقد کے مقابلے میں مہنگا ہوتا ہے کبھی کبھی کسی شخص کو قرضہ کی ضرورت ہوتی ہے تو اس شخص کو ہم قرض نہیں دیتے بلکہ کوئی چیز دے دیتے ہیں اور اس کو یہ کہہ دیتے ہیں کہ  آپ یہ چیز اپنے لیے فروخت کرلیں ۔اگر زیادہ پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اس وقت عام طور پر ہم بازار سے اس شخص کو پیسوں کے بجائے سونا دیتے ہیں پھر وہ شخص مارکیٹ میں جاکر اس سونے کو فروخت کرتاہیں اور جب کسی شخص کو کم پیسے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کو عام طور پر موٹر سائیکل،موبائل یا فریج دے دیتے ہیں اور وہ شخص مارکیٹ میں جا کر اس کو فروخت کردیتا ہے مارکیٹ میں وہ اس کو کم قیمت پر فروخت کرتا ہے یا زیادہ قیمت پر فروخت کرتا ہے اس سے ہمیں سروکار نہیں ۔صورت یہ ہوتی ہے کہ اگر کسی شخص کو مثال کے طور پر ایک لاکھ روپے کی ضرورت ہوتو اس کو ہم بازار سے سونا دیتے ہیں لیکن ہم اس شخص سے سونے کی قیمت قسطوںپروصول کرنے کی وجہ سے زیادہ لیتے ہیں ۔مثلا اگر وہ شخص سونے کو ایک سال کی قسط پر لیتا ہے تو اس سے ہم ایک لاکھ بیس ہزار بھی لے سکتے ہیں ایک لاکھ تیس ہزار بھی لے سکتے ہیں کبھی کبھی اس طرح بہت ہوتا ہے کہ اگر ہم نے کسی شخص کوئی چیز قسط پر دی ہوتی ہے (ایک سال کی قسط پر)تو ایسا ہو جاتاہے کہ وہ شخص ایک سال میں وہ روپے ادا نہیں کرتا ،کبھی کبھی 18مہینے تک چلا جاتا ہے لیکن ہم اس پر جرمانہ نہیں لگاتے ۔موبائل میں بھی یہی صورت ہوتی ہے کہ ہم کسی شخص کو قرض کے بجائے موبائل دیتے ہیں اس کو یہ کہہ دیتے ہیں کہ بازار میں اپنے لیے فروخت کریں اسی موبائل کو ہم واپس نہیں خریدتے لیکن موبائل کی قیمت قسط پر ہونے کی وجہ سے زیادہ لگاتے ہیں ۔

امر مطلوب یہ ہے کہ اس طرح کاروبار کرنا شرعی طور پر جائز ہے یاکہ نہیں ؟

سائل :ولی شاہ مقام ۔حاجی عبدالباسط انسٹالمنٹ سنٹر مین شام نگر روڈ نزد مٹھائی چوک ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

قسطوں پر کاروبار کی مذکورہ صورت درست ہے البتہ جس صورت میں گاہک کا اصل مقصود قرض لینا ہو اس صورت میں مذکورہ طریقہ اختیار کرنا بہتر نہیں تاہم جائز پھر بھی ہے ۔

فتح القدیر7/213 میں ہے:

ثم الذي يقع في قلبي أن ما يخرجه الدافع إن فعلت صورة يعود فيها إليه هو أو بعضه كعود الثوب أو الحرير في الصورة الأولى وكعود العشرة في صورة إقراض الخمسة عشر فمكروه وإلا فلا كراهة إلا خلاف الأولى على بعض الاحتمالات كأن يحتاج المديون فيأبى المسئول أن يقرض بل أن يبيع ما يساوي عشرة بخمسة عشر إلى أجل فيشتريه المديون ويبيعه في السوق بعشرة حالة ولا بأس في هذا فإن الأجل قابله قسط من الثمن والقرض غير واجب عليه دائما بل هو مندوب فإن تركه بمجرد رغبة عنه إلى زيادة الدنيا فمكروه أو لعارض يعذر به فلا وإنما يعرف ذلك في خصوصيات المواد ومالم ترجع إليه العين التي خرجت منه لا يسمى بيع العينة لأنه من العين المسترجعة لا العين مطلقا وإلا فكل بيع بيع العينة.

شامی 7/613 میں ہے:

واقره فی البحر والنهر والشرنبلالیة وهو ظاهر وجعله السید ابو السعود محمل قول ابی یوسف وحمل قول محمد والحدیث علی صورة مورة العود

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved