• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قسطوں کے کاروبار میں زکوٰۃ نکالنے کا طریقہ

استفتاء

محترم مفتی صاحب!

گذارش ہے کہ ٹرالروں سے متعلق ایک یہ  کام بھی ہوتا ہے کہ بڑا ٹرالر نقد پر ایک کروڑ روپے کا ملتا ہے، بہت سے لوگ نقد پر نہیں خریدتے بلکہ قسطوں پر خریدتے ہیں اور ماہانہ ایک لاکھ روپے قسط ادا کرتے ہیں۔ اس صورت میں خریدار کو ٹرالر 2 کروڑ پچیس لاکھ کا فروخت کیا  جاتا ہے اگر کسی شخص کے پاس بالفرض چار کروڑ روپے ہوں اور وہ چار ٹرالر نقد خرید کر قسطوں پر فروخت کرتا ہے اور اسے ماہانہ چار لاکھ روپے حاصل ہوتے ہیں تو اپنے اخراجات نکالنے کے بعد وہ باقی پیسے جمع کرتا رہے گا اور جوں ہی اس کے پاس ایک کروڑ مکمل ہو گا مزید ایک ٹرالا نقد خرید کر آگے قسطوں میں فروخت  کردے گا۔ اگر بالفرض کوئی شخص زیادہ مالدار ہو اور

اس کے پاس 60 یا 70 کروڑ روپے ہوں تو وہ بھی اپنا سرکل اسی طرح چلائے گا۔

سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا طریقہ پر قسطوں پر فروخت کرنے والا شخص زکوٰۃ کس مالیت پر ادا کرے گا۔ مثلاً جس شخص کے پاس چار کروڑ روپے تھے اس نے ٹرالر 9 کروڑ روپے میں فروخت کیے ہیں لیکن اسے 9 کروڑ روپے پونے انیس سالوں میں ملنے ہیں۔ جبکہ وہ اس دوران جو بھی پیسے ملیں گے دوبارہ اسی طرح لگا دے گا۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ان کی رقم دوسروں کے پاس ہے خود ان کے پاس نہیں ہے اس لیے انہیں صرف اتنی رقم کی زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے جو کہ انہیں سال بھر وصول ہوئی ہو۔ مثلاً چار کروڑ والے کو 48 لاکھ روپے۔

آپ قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کر دیں کہ زکوٰۃ کتنی رقم پر ادا کرنی ہو گی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ٹرالروں کی قیمت کی مد میں سائل نے جو رقم وصول کرنی ہے اس کی حیثیت فقہی لحاظ سے دین قوی کی ہے۔ یہ رقم جتنے عرصے تک مقروض کے پاس رہے گی سال کے سال اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی رہے گی۔ اس میں سے جو رقم دوران سال وصول ہوتی رہے وہ جب  چالیس درہم  کی مالیت کو پہنچ جائے تو اس کی زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہو گا۔ باقی ماندہ رقم جو وصول نہ ہو اس کے بارے میں دو اختیار ہیں: (1) یا تو  سال کے سال اس کی زکوٰۃ ادا کرتے رہیں اور اس کا حساب رکھتے رہیں اور اس میں سہولت ہے۔ (2) یا پھر جب وہ رقم وصول ہو تو پھر یکمشت زکوٰۃ ادا کریں۔ جب وصول ہونے کے بعد دیں گے تو گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ بھی دینی پڑے گی۔

خلاصہ یہ ہے کہ آپ کے جو پیسے مقروض کے پاس ہیں ان کی بھی زکوٰۃ آپ پر واجب ہے۔

فتاویٰ شامی (3/236) میں ہے:

(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة : قوي ، ومتوسط ، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول ، لكن لا فورا بل ( عند قبض أربعين درهما من الدين ) القوي كقرض (وبدل مال تجارة ) …… قوله : إذا تم نصابا ) الضمير في تم يعود للدين المفهوم من الديون ، والمراد إذا بلغ نصابا بنفسه أو بما عنده مما يتم به النصاب ( قوله : وحال الحول ) أي ولو قبل قبضه في القوي والمتوسط وبعده الضعيف ط ( قوله : عند قبض أربعين درهما ) قال في المحيط ؛ لأن الزكاة لا تجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج فكذلك لا يجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج ……. قوله: (كقرض) قلت: الظاهر أن منه مال المرصد المشهور في ديارنا، لانه إذا أنفق المستأجر لدار الوقف على عمارتها الضرورية بأمر القاضي للضرورة الداعية إليه يكون بمنزلة استقراض المتولي من المتسأجر فإذا قبض ذلك كله أو أربعين درهما منه ولو باقتطاع ذلك من أجرة الدار تجب زكاته لما مضى من السنين والناس عنه غافلون.

فتاویٰ شامی میں دوسری جگہ (4/184) میں ہے:

ولو كان الدين على مقر مليء أو على معسر أو مفلس فوصل إلى ملكه لزم زكاة ما مضى.

…………………………………………………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved