- فتوی نمبر: 21-9
- تاریخ: 19 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
میں خود قسطوں کا کاروبار کرتا ہوں ،کسی بہت زیادہ اضافہ اور پرسنٹیج کے بجائے میری قیمت نقد کے بالکل قریب ہوتی ہے ،کوشش ہوتی ہے کہ کسی کے ساتھ بھلا ہو جائے۔چار اقساط ہوں،چھ ہوں یا پھر اس سے بھی زیادہ ہوں بہرحال جوقیمت شروع میں طے کرلی گئی وہ تبدیل نہیں ہوتی ۔ اگر کو ئی قسط نہیں دے سکا تو کوئی جرمانہ یا قیمت میں اضافہ نہیں ہے ۔اگر چار ماہ کے معاہدہ میں بندہ آٹھ ماہ یا زیادہ کرتا ہے تب بھی قیمت تبدیل نہیں ہوتی ۔زیادہ تر میں آن لائن سٹورز پر جو قیمت آتی ہے اس پرچار قسطیں کر لیتا ہوں ،سوائے موبائل اور موٹر سائیکل کے،لیکن اس صورت میں بھی دس فیصد ہی قیمت زیادہ ہوتی ہے ۔میں نے شاپ کھولی ہے ،اس لئے کہ جو لوگ نقد نہیں خرید سکتے اور قسطوں والوں کے 50 فیصدیا 40 فیصد قسطوں کی صورت میں زیادہ رقم نقدقیمت کے اعتبار سے ادا نہیں کر سکتے ان کا بھلا ہو۔آپ مہربانی فرما کر میری رہنمائی فرمائیں کیا اس طرح کاروبارکرنادرست ہے؟
وضاحت مطلوب ہے:کہ اگر کوئی قسط جمع نہ کروائے تو اس کاکیا حل ہے؟
جواب وضاحت:بس ہم باربار اس کے پاس جاتے ہیں اورکوئی حل نہیں ایک بندہ ڈیڑھ سال سے نہیں دے رہا اس کو بھی بس ہم کہتے ہی ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ طریقے سے قسطوں کا کاروبار کرنا جائز ہے،تاہم بہتر یہ ہے کہ اپنا تحریری معاہدہ نامہ بھی دارالافتاء کو دکھا لیا جائے ،ایسا نہ ہو کہ اس میں کوئی ایسی ناجائز شق شامل ہوجس کی طرف آپ کادھیان نہ گیاہو۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved