• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قسطوں پر خرید وفروخت کی چند شرائط کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام قسطوں پر خرید وفروخت کی مندرجہ ذیل شرائط کے بارےمیں۔

شرائط:۔

(1)آپ کو دو اشخاص کی ضمانت دینی ہوگی جو سرکاری ملازم ،پرائیویٹ ادارے کے ملازم یا دوکاندار(ہوں) جن کی معقول آمدنی ہو۔

(2)درخواست کی تکمیل پر کل قیمت کا دو فیصد برائے ایگریمنٹ جمع کروانا ہوگا۔

(3)قومی شناختی کارڈ اور اپنے ادارے کا شناختی کارڈ اپنے ہمراہ لانا ہوگا اور فوٹو کاپی جمع کروانا ہوگی۔

(4)مقررہ وقت پر قسط ادا  نہ کرنے کی صورت میں گارنٹی شدہ چیزوں کی گارنٹی منسوخ تصور ہوگی۔

(5)مقررہ وقت سے پہلے ادائیگی کی صورت میں رعایت شیڈول کے مطابق کی جائے گی۔

(6)مقررہ وقت پر ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں اضافی جرمانہ و خرچہ آمدورفت ادا کرنا ہو گا۔

(7)قسط کی عدم ادائیگی کی صورت میں ادارہ بغیر کسی ادائیگی کے دی گئی اشیاء واپس لینے کا مجاز ہوگا۔

(8)انکوائری انسپکٹر کو اختیار ہے کہ وہ کوئی وجہ بتائے بغیر فارم اور گارنٹی منسوخ کرسکے۔

(9)ڈلیوری کے بعد کسی بھی وجہ سے واپسی کی صورت میں ادا کی ہوئی قسطیں واپس نہیں ہوں گی۔ بلکہ بطور کرایہ تصور ہوں گی۔

اس شرائط نامہ میں اگر کوئی خرابی ہے تو ان کے متبادل شرائط بتادیں یا بالکل ان کو ختم کردیں ۔

ہاشم خان انسٹالمنٹ(بواسطہ مولانا زکریا صاحب)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ شرائط نامہ  میں شق نمبر 5درست نہیں

توجیہ:  اس شرط پر سودا کرنا کہ مقررہ وقت سے پہلے ادائیگی کی صورت میں شیڈول کے مطابق  رعایت  ہوگی   اس میں دو احتمال ہیں (۱) ایک یہ کہ   چونکہ یہ بات پہلے سے سودے کے وقت ہی طے ہوتی ہے اس لیے یہ گویا عقد کا حصہ ہے  جس کی وجہ سے لازم آئے گا کہ عقد کے وقت ثمن مجہول یعنی نامعلوم ہےکیونکہ نہ معلوم خریدار مقرر وقت سے پہلے ادائیگی کرے اور رعایت کے نتیجے میں اسے چیز کتنے کی پڑے اور یہ صورت گویا ایسی  ہے جیسےکہ اس شرط پر سودا کیا جائے کہ فلاں سامان  نقد اتنے کا اور ادھار اتنے کا عقد کے وقت اور کوئی ایک بات حتمی طور پر طے نہ ہو اور اس صورت کو فقہائے کرام نے ناجائز کہا ہےاور (۲) دوسرا احتمال یہ ہے کہ اصل قیمت تو وہی طے یہ پوری قسطوں کی صورت میں ہوگی لیکن بائع کی طرف سے یہ آفر ہے کہ اگر جلدی ادائیگی کرو گے تو اتنی رعایت ملے گی اور یہ صورت ضع وتعجل(یعنی خریدار سے یہ کہنا کہ اگر تو بقیہ رقم جلدی ادا کرے گا تو میں اس میں کمی کردوں گا )کی بنے گی اور وہ بھی ناجائز ہے لہذا مذکورہ شق جائز نہیں ۔

متبادل:اس شق کا متبادل مرابحہ مؤجلہ ہے، مرابحہ اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص ایک شے مثلاً دو سو میں خریدے اورقیمت خرید یا قیمت لاگت پر پانچ یا دس فیصد وغیرہ نفع کے ساتھ فروخت کردے اور موجلہ ادھار کو کہتے ہیں یعنی پھر وہ رقم ماہانہ قسطوں میں ادا کی جائے۔ مثلاً بائع نے کہا ہو کہ یہ شے میں نے آٹھ ہزار روپے میں خریدی ہے اورایک سو روپے ماہانہ نفع کے حساب سے یہ شے دو سال کی ماہانہ اقساط پر تمہارے ہاتھ دس ہزار چار سو میں فروخت کی، خریدار اگر کسی بھی وقت باقی قسطیں فی الفور ادا کر دے تو باقی مہینوں کا نفع ساقط ہوجائے گا۔

اسی طرح  شق  نمبر 6بھی درست نہیں۔

توجیہ: اس شرط پر سودا کرنا کہ مقررہ وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں اضافی جرمانہ ادا کرنا ہوگا تو یہ شرط مالی جرمانے کی ہے اور مالی جرمانہ جائز نہیں۔

متبادل:اس شق کا متبادل یہ ہے کہ عقد میں یہ شرط لگا سکتے ہیں کہ اگر خریدار مقررہ وقت پر قسط ادا نہ کرسکا تو اس کو باقی اقساط فی الفور ادا کرنی ہوں گی ۔

اسی طرح شق نمبر 7اور 9 بھی درست نہیں ۔

توجیہ: اس شرط پر سودا کرنا کہ قسط کی عدم ادائیگی کی صورت میں ادارہ بغیر کسی ادائیگی کے دی گئی اشیاء واپس لینے کا مجاز ہوگا جائز نہیں کیونکہ یہ بھی مالی جرمانے کی ایک صورت ہے جو ناجائز ہے۔نیز شق نمبر ۹ کے مطابق ادا کی ہوئی قسطوں کو کرایہ قرار دینا شرعاً ممکن نہیں۔

متبادل: ان شقوں کا متبادل ہمارے علم میں نہیں۔

شامی (6/106)میں ہے:

التعزير باالمال كان في ابتداء الاسلام ثم نسخ والحاصل ان المذهب عدم التعزير باخذ المال.

شامی(7/405)میں ہے:

قضى المديون الدين قبل الحلول أو مات فأخذ من تركته،فجواب المتأخرين:أنه لا يؤخذ من المرابحة التي جرت بينهما إلا بقدر ما مضى من الأيام،قيل له أتفتي به أيضا؟قال نعم قال ولو أخذ المقرض القرض والمرابحة قبل مضي الأجل فللمديون أن يرجع بحصة ما بقي من الأيام وذكر الشارح آخر الكتاب: أنه أفتى به المرحوم مفتي الروم أبو السعود وعلله بالرفق من الجانبين قلت:وبه أفتى الحانوتي وغيره وفي الفتاوى الحامدية:سئل فيما إذا كان لزيد بذمة عمرو مبلغ دين معلوم فرابحه عليه إلى سنة ثم بعد ذلك بعشرين يوما مات عمرو المديون فحل الدين ودفعه الوارث لزيد،فهل يؤخذ من المرابحة شيء أو لا؟ الجواب جواب المتأخرين:أنه لا يؤخذ من المرابحة التي جرت المبايعة عليها بينهما إلا بقدر ما مضى من الأيام؛قيل للعلامة نجم الدين أتفتي به؟ قال نعم كذا في الأنقروي والتنوير وأفتى به علامة الروم مولانا أبو السعود

شامی(10/524)میں ہے:

( قضى المديون الدين المؤجل قبل الحلول أو مات ) فحل بموته ( فأخذ من تركته لا يأخذ من المرابحة التي جرت بينهما إلا بقدر ما مضى من الأيام وهو جواب المتأخرين ) قنية.وبه أفتى المرحوم أبو السعود أفندى مفتي الروم وعلله بالرفق للجانبين وقد قدمته قبل فصل القرض والله أعلم

قوله ( لا يأخذ من المرابحة الخ ) صورته اشترى شيئا بعشرة نقدا وباعه لآخر بعشرين إلى أجل هو عشرة أشهر فإذا قضاه بعد تمام خمسة أو مات بعدها يأخذ خمسة ويترك خمسة أقول:والظاهر أن مثله ما لو أقرضه وباعه سلعة بثمن معلوم وأجل ذلك،فيحسب له من ثمن السلعة بقدر ما مضى فقط تأمل

 قوله ( وعلله الخ ) علله الحانوتي بالتباعد عن شبهة الربا لأنها في باب الربا ملحقة بالحقيقة ووجهه أن الربح في مقابلة الأجل لأن الأجل وإن لم يكن مالا ولا يقابله شيء من الثمن لكن اعتبروه مالا في المرابحة إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن فلو أخذ كل الثمن قبل الحلول كان أخذه بلا عوض والله سبحانه وتعالى أعلم

مبسوط (7/9)میں ہے:

وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد لأنه لم يعامله على ثمن معلوم

مسائل بہشتی زیور (2/231)میں ہے:

مسئلہ: قسطوں پر سودا کرتے وقت عام طور سے یہ شرط ذکر کی جاتی ہے کہ اگر خریدار نے ایک یادو قسطیں بروقت ادا نہ کیں تو اس کو زائد رقم یعنی جرمانہ ادا کرنا ہوگا تو یہ شرط جائز نہیں ہے کیونکہ زائد رقم سود بنتی ہے اور سودا کرتے وقت ایسی شرط لگانے سے سودا بھی فاسد ہوجاتا ہے۔

مسئلہ: اسی طرح قسطوں پر خرید وفروخت میں یہ شرط کرنا کہ اگر تمام قسطیں ادا نہ کیں تو فروخت کیا ہوا سامان بھی واپس لیا جائے گا اور ادا شدہ قسطیں بھی ضبط کرلی جائیں گی یہ شرط فاسد ہے جس سے سودا بھی فاسد ہوتا ہے۔

مسئلہ: قسطوں پر بیع میں یہ شرط کرنا جائز ہے کہ اگر خریدار مقررہ وقت پر قسط ادا نہ کرسکا تو اس کو باقی اقساط فی الفور ادا کرنی ہوں گی۔اگر یہ معاملہ اس طرح ہوا ہو کہ بائع نے کہا ادھار لینے کی صورت میں قیمت دس ہزارہوگی جو ماہانہ قسطوں میں وصول کی جائے گی۔ اس صورت میں خریدار اگر وقت سے پہلے ادائیگی کردے تو قیمت میں کچھ کمی نہ کی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved