- فتوی نمبر: 34-41
- تاریخ: 03 ستمبر 2025
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت > قسطوں پر خرید و فروخت
استفتاء
شرائط نامہ کی عبارت درج ذیل ہے:
(1)آپ کو دو اشخاص کی ضمانت دینی ہوگی جو سرکاری ملازم ،پرائیویٹ ادارے کے ملازم یا دوکاندار(ہوں) جن کی معقول آمدنی ہو۔
(2)درخواست کی تکمیل پر کل قیمت کا دو فیصد برائے ایگریمنٹ جمع کروانا ہوگا۔
(3)قومی شناختی کارڈ اور اپنے ادارے کا شناختی کارڈ اپنے ہمراہ لانا ہوگا اور فوٹو کاپی جمع کروانا ہوگی۔
(4)مقررہ وقت پر قسط ادا نہ کرنے کی صورت میں گارنٹی شدہ چیزوں کی گارنٹی منسوخ تصور ہوگی۔
(5)مقررہ وقت پرقسط ادا نہ ہونے کی صورت میں اضافی جرمانہ و خرچہ آمدورفت ادا کرنا ہو گا۔
(6)قسط کی عدم ادائیگی کی صورت میں ادارہ بغیر کسی ادائیگی کے دی گئی اشیاء واپس لینے کا مجاز ہوگا۔
(7)انکوائری انسپکٹر کو اختیار ہے کہ وہ کوئی وجہ بتائے بغیر فارم اور گارنٹی منسوخ کرسکے۔
(8)ڈلیوری کے بعد کسی بھی وجہ سے واپسی کی صورت میں ادا کی ہوئی قسطیں واپس نہیں ہوں گی۔ بلکہ بطور کرایہ تصور ہوں گی۔
میں قسطوں کا کاروبار کرتا ہوں۔کیا میرا یہ شرائط نامہ شرعا ًدرست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ شرائط نامہ میں شق نمبر 5 درست نہیں۔
توجیہ: اس شرط پر سودا کرنا کہ مقررہ وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں اضافی جرمانہ ادا کرنا ہوگا یہ شرط سودی شرط ہے اور سودی شرط لگانا جائز نہیں۔
اسی طرح شق نمبر 6اور8 بھی درست نہیں ۔
توجیہ: اس شرط پر سودا کرنا کہ قسط کی عدم ادائیگی کی صورت میں ادارہ بغیر کسی ادائیگی کے دی گئی اشیاء واپس لینے کا مجاز ہوگا جائز نہیں کیونکہ یہ مالی جرمانے کی ایک صورت ہے جو ناجائز ہے۔نیز شق نمبر 8 کے مطابق ادا کی ہوئی قسطوں کو کرایہ قرار دینا شرعاً جائز نہیں۔
شامی (6/106)میں ہے:
التعزير بالمال كان في ابتداء الاسلام ثم نسخ والحاصل ان المذهب عدم التعزير باخذ المال.
مؤطا مع أوجز المسالك (11/ 412) میں ہے:
كان الربا في الجاهلية أن يكون للرجل على الرجل الحق إلى أجل فإذا حل الحق قال أتقضي أم تربي فإن قضى أخذ و إلا زاده في حقه و أخر عنه في الأجل.
فقہ البیوع (1/545) میں ہے:
وإن زيادة الثمن من أجل الأجل، وإن كان جائزاً عند بداية العقد، ولكن لا تجوز الزيادة عند التخلف فى الأداء، فإنه رباً في معنى “أتقضى أم تُربي؟”، وذلك لأن الأجل، وإن كان منظوراً عند تعيين الثمن في بداية العقد، ولكن لما تعين الثمن، فإنّ كله مقابل للمبيع، وليس مقابلاً للأجل، ولذلك لا يجوز “ضع وتعجل”، كما سيأتي تفصيله إن شاء الله تعالى۔ أما إذا زيد فى الثمن عند التخلف في الأداء، فهو مقابل للأجل مباشرة لاغير، وهو الربا۔
مسائل بہشتی زیور (2/231)میں ہے:
مسئلہ: قسطوں پر سودا کرتے وقت عام طور سے یہ شرط ذکر کی جاتی ہے کہ اگر خریدار نے ایک یادو قسطیں بروقت ادا نہ کیں تو اس کو زائد رقم یعنی جرمانہ ادا کرنا ہوگا تو یہ شرط جائز نہیں ہے کیونکہ زائد رقم سود بنتی ہے اور سودا کرتے وقت ایسی شرط لگانے سے سودا بھی فاسد ہوجاتا ہے۔
مسئلہ: اسی طرح قسطوں پر خرید وفروخت میں یہ شرط کرنا کہ اگر تمام قسطیں ادا نہ کیں تو فروخت کیا ہوا سامان بھی واپس لیا جائے گا اور ادا شدہ قسطیں بھی ضبط کرلی جائیں گی یہ شرط فاسد ہے جس سے سودا بھی فاسد ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved