- فتوی نمبر: 22-293
- تاریخ: 09 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
قسطوں کے کاروبار کے بارے میں معلومات لینی ہیں، ہم لوگوں کو اشیاء خرید کر دیتے ہیں جس کے اوپر ہم ایک خاص فیصد کے تحت نفع وصول کرتے ہیں۔ نوٹ: ہم لوگوں کو نقد پیسے نہیں دیتے بلکہ کوئی چیز جو انکی ضرورت ہو اور وہ لینا چاہتے ہوں وہ لے کر دیتے ہیں۔ جیسے کسی نے موبائل لینا ہوجو کہ 30000 کا ہوتو ہم وہ موبائل لے کر اسے فروخت دیتے ہیں جس پر ہم اس سے ایک خاص فیصد کے لحاظ سے منافع لیتے ہیں جو منافع وہ شخص ہمیں قسطوں کی صورت میں ادا کرتا ہے۔
(30000×40%=42000 (3000قسط مہانہ)
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
قسطوں پر خرید وفروخت میں درج ذیل شرائط کا لحاظ اور رعایت کرنا ضروری ہے:
(1)قسط کی رقم متعین ہو (2)مدت متعین ہو (3)معاملہ کرتے وقت یہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھارکا(4)چیزکی کل قیمت متعین ہو(5) کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے جرمانہ وصول نہ کیا جائے (6)قسطوں کی جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی مشروط یا معروف نہ ہو (7)اسی طرح قسطوں پر خرید وفروخت میں یہ شرط بھی شرط فاسد ہے کہ اگر تمام قسطیں ادا نہ کیں تو فروخت کیا ہوا سامان بھی واپس لیا جائے گا اور ادا شدہ قسطیں بھی ضبط کرلی جائیں گی اگر بوقتِ عقد یہ شروط ہوں گی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا(8)جو چیز پہلے سے آپ کی ملکیت میں نہ ہو اور آپ گاہک کی فرمائش پر وہ چیز خرید کر اسے بیچیں تو پہلے سے آپس میں جو بات ہوگی اس کی حیثیت صرف وعدہ کی ہوگی آپ اس چیز کو خریدنے کے بعد اسے بیچنے اور وہ خریدنے کاپابند نہ ہوگاپھر چاہے رضامندی سے آپ دونوں معاملہ کرلیں اور اگر دونوں ایک دوسرے کے پابند سمجھے جائیں تو یہ صورت ناجائز ہے۔
عام طور سے ان شرائط کی رعایت کے ساتھ قسطوں پر خریدوفروخت کرنا جائز ہےتاہم قسطوں کے کسی کاروبار میں مذکورہ شرائط کے علاوہ بھی ہوں تو ان کو ذکر کرکے ان کے بارے میں معلوم کرلیا جائے۔
ہدايہ(2/٢٢) میں ہے:
قال ويجوز البيع بثمن حال ومؤجل إذا كان الأجل معلوما لإطلاق قوله تعالى {وأحل الله البيع}وعنه عليه الصلاة والسلام أنه اشترى من يهودي طعاما إلى أجل معلوم ورهنه درعه ولا بد أن يكون الأجل معلوما.
الفقه الإسلامی وأدلتہ (٥/١٤٧) میں ہے:
أجاز الشافعية والحنفية والمالكية والحنابلة وزيد بن علي والمؤيد بالله والجمهور: بيع الشيء في الحال لأجل أو بالتقسيط بأكثر من ثمنه النقدي إذا كان العقد مستقلاً بهذا النحو، ولم يكن فيه جهالة بصفقة أو بيعة من صفقتين أو بيعتين، حتى لايكون بيعتان في بيعة.
شرح المجلہ(۱/ ۲٤٦) میں ہے:
البیع مع تأجیل ا لثمن وتقسیطه صحیح یلزم أن تکون المدّة معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط.
مسائل بہشتی زیور (2/ 238 )میں ہے:
مسئلہ: قسطوں پر سودا کرتے وقت عام طور سے یہ شرط ذکر کی جاتی ہے کہ اگر خریدار نے ایک یادو قسطیں بروقت ادا نہ کیں تو اس کو زائد رقم یعنی جرمانہ ادا کرنا ہوگا تو یہ شرط جائز نہیں ہے کیونکہ زائد رقم سود بنتی ہے اور سودا کرتے وقت ایسی شرط لگانے سے سودا بھی فاسد ہوجاتا ہے۔
مسئلہ: اسی طرح قسطوں پر خرید وفروخت میں یہ شرط کرنا کہ اگر تمام قسطیں ادا نہ کیں تو فروخت کیا ہوا سامان بھی واپس لیا جائے گا اور ادا شدہ قسطیں بھی ضبط کرلی جائیں گی یہ شرط فاسد ہے جس سے سودا بھی فاسد ہوتا ہے۔
مسئلہ: قسطوں پر بیع میں یہ شرط کرنا جائز ہے کہ اگر خریدار مقررہ وقت پر قسط ادا نہ کرسکا تو اس کو باقی اقساط فی الفور ادا کرنی ہوں گی۔اگر یہ معاملہ اس طرح ہوا ہو کہ بائع نے کہا ادھار لینے کی صورت میں قیمت دس ہزارہوگی جو ماہانہ قسطوں میں وصول کی جائے گی۔ اس صورت میں خریدار اگر وقت سے پہلے ادائیگی کردے تو قیمت میں کچھ کمی نہ کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved