• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قسطوں پر خرید و فروخت کا حکم، قسط کے عدم ادائیگی پر جرمانہ

استفتاء

1۔ قسطوں پر واشنگ مشین یا فریج یا کوئی اور چیز خریدنا شرعاً کیسا ہے؟ جبکہ دکاندار قسطوں پر شے کی اصل قیمت سے زیادہ وصول کرتے ہیں۔ کیا قسط کی بروقت عدم ادائیگی پر جرمانہ دینا بھی جائز ہے؟

سودی بینک سے قسطوں پر چیز خریدنا

2۔ کیا سودی بینک سے قسطوں پر گاڑی یا کوئی اور چیز خریدنا شرعاً جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ قسطوں پر خرید و فروخت بذات خود جائز ہے۔ اگرچہ قسطوں پر خرید و فروخت کی صورت میں اشیاء کی قیمت، اصل قیمت سے زائد وصول کی جاتی ہو۔ البتہ قسط کی بروقت عدم ادائیگی پر جرمانہ لگانا یا اور کوئی خلاف شرع شرط لگانا جائز نہیں۔

2۔ جائز نہیں۔

في المجلة رقم المادة: 245:

البيع مع تأجيل الثمن و تقسيطه صحيح.

و فيه أيضاً رقم المادة: 246:

يلزم أن يكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل و التقسيط.

و في الفقه الإسلامي و أدلته (7/ 5199):

البيع بالتقسيط جائز شرعاً و لو زاد فيه الثمن المؤجل على المعجل.

و فيه أيضاً (7/ 5172):

تجوز الزيادة في الثمن المؤجل عن الثمن الحالي كما يجوز ذكر ثمن البيع نقداً و ثمنه بالأقساط

لمدة معلومة ….. فإن وقع البيع مع التردد بين العقد و التأجيل بأن لم يحصل الاتفاق الجازم على ثمن واحد محدد فهو غير جائز شرعاً.

و في بحوث في قضايا الفقهية المعاصرة (1/ 12):

أما الأئمة الأربعة و جمهور الفقهاء و المحدثين فقد أجازوا البيع المؤجل بأكثر من سعر النقد بشرط أن يبت العاقدان بأنه بيع مؤجل بأجل معلوم بثمن متفق عليه عند العقد.

و في المبسوط (13/ 126):

مقابلة الأجل بالدراهم رباً ألا ترى أن في الدين الحال لو زاده في المال ليؤجل لم يجز.

و في المؤطا مع أوجز المسالك (11/ 412):

كان الربا في الجاهلية أن يكون للرجل على الرجل الحق إلى أجل فإذا حل الحق قال أتقضي أم تربي فإن قضى أخذ و إلا زاده في حقه و أخر عنه في الأجل.

مسائل بہشتی زیور (2/ 231) میں ہے:

’’قسطوں پر سودا کرتے وقت عام طور سے یہ شرط ذکر کی جاتی ہے کہ اگر خریدار نے ایک یا دو قسطیں بروقت ادا نہ کیں تو اس کو زائد رقم یعنی جرمانہ ادا کرنا کرنا ہو گا تو یہ شرط جائز نہیں ہے۔ کیونکہ زائد رقم سود بنتی ہے اور سود ا کرتے وقت ایسی شرط لگانے سے سودا بھی فاسد ہو جاتا ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved