- تاریخ: 21 مئی 2024
- عنوانات: عبادات
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
5۔ مساجد ثلاثہ کے علاہ دیگر مقامات مقدسہ پر نماز پڑھنے کی غرض سے شد رحال کر کے جانے کو بعض حضرات (مثلاً صحابی رسول ﷺ ابو بصرہ رضی اللہ عنہ) ناجائز کہتے ہیں جبکہ بعض حضرات (مثلا صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ) اس کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔
الأوجز (2/335-336) میں ہے:
والمعنى لا يسافر (إلا إلى ثلاثة مساجد) قال الزرقاني: استثناء مفرغ، أي إلى موضع للصلاة فيه إلا لهذه الثلاثة، وليس المراد أنه لا يسافر أصلاً إلا لها، قال ابن عبد البر وإن كان أبو بصرة زاه عاماً فلم يره أبو هريرة إلا في الواجب من النذر وأما في التبرر كالمواضع اللتي يتبرك بشهودها والمباح كزيارة الأخ في الله ليس بداخل في النهي.
قلت: بل هو المتعين على الظاهر لما تقدم من رواية أبي هريرة عند أحمد والبزار والطبراني، قال: أقبلت من الطور صليت فيه، وأخرج الطحاوي في مشكله عن المقبري عن أبي هريرة أنه خرج إلى الطور فصلى فيه، ثم أقبل فلقي حميل بن بصرة الحديث، وفي طريق آخر عن أبي هريرة أنه قال: ((أتيت الطور فصليت فيه)) الحديث، فهذه الروايات صريحة في أن أبي هريرة راح يتبرك بالصلاة في تلك البقعة التي هي محط الأنوار والتكليم ورد أبو بصرة عمل الشد للصلاة فيها.
ان اصولی باتوں کے بعد سوالات کا جواب یہ ہے:
1۔ اولیاء اللہ کی قبور کی زیارت کے لیے گھر سے سفر کر کے جانے میں اختلاف ہے، راجح جواز ہے۔ اور چونکہ اختلاف کرنے والے بھی اہلسنت ہی میں سے ہیں اس لیے اختلاف سے نکلنے کے لیے اگرچہ بہتر یہ ہے کہ صرف اولیاء اللہ کی قبور کی زیارت کے لیے شد رحال کر کے نہ جایا جائے۔
2۔ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ دیگر مقامات مقدسہ جیسے کوہ طور کی زیارت کے لیے شد رحال کر کے جانا جائز ہے۔ البتہ ایسی جگہوں میں صرف نماز پڑھنے کی غرض سے شد رحال کر کے جانا مختلف فیہ ہے اس لیے احتیاط یہ ہے کہ ایسی جگہوں میں صرف نماز کی غرض سے شد رحال کر کے نہ جایا جائے ۔
نیز یہ حکم دیگر مفاسد سے قطع نظر کر کے ہے لیکن اگر شد رحال کر کے جانے میں یا شد رحال کے بغیر جانے میں کوئی مفسدہ ہو مثلاً کسی بزرگ کے مزار پر عرس کا موقعہ ہو تو پھر نہ شد رحال کے جانا جائز ہے اور نہ ہی شد رحال کے بغیرجانا جائز ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved