• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"قل إن ربي يقذف بالحق علام الغيوب” کی جگہ "يقذف بالغيب” پڑھنے سے نماز کا حکم

استفتاء

نماز میں "قل إن ربي  يقذف بالحق علام الغيوب”  کی جگہ "يقذف بالغيب”  پڑھنے سے نماز فاسد ہوجائے گی یا نہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی ۔

توجیہ:” يقذف بالحق "  کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی انبیاء کی طرف حق بات کا القاء کرتے ہیں ۔جبکہ "قذف بالغيب” عرب کا محاورہ ہے جو بے دلیل ،محض اپنے خیال سے بے دلیل بات کرنے کے بارے میں بولا جاتا ہے ۔ جیساکہ اللہ تعالی نے قرآن میں کفار کے بارے میں فرمایا "ويقذفون بالغيب من مكان بعيد "جس کا ترجمہ یہ ہے کہ "اور پھینکتے رہے بن دیکھے نشانے پر دور کی جگہ سے ” اور اصول یہ ہے کہ اگر نماز میں ایک کلمہ کو دوسرے کلمہ سے بدل دیا جائے اور دونوں کا معنی قریب قریب ہو اور دوسرا کلمہ قرآن میں موجود ہو تو نماز فاسد نہیں ہوتی اور اگر معنیٰ قریب قریب  نہ ہو بلکہ ایسا ہو کہ جس کا اعتقاد کفر ہو تو نماز فاسد ہوجاتی ہے اگر چہ وہ کلمہ قرآن میں موجود ہو۔ مذکورہ صورت میں "بالغیب” اگر چہ قرآن میں موجود ہے لیکن اس کو "ان ربي يقذف” کے ساتھ پڑھنے سے اس کا ایسا معنیٰ بن جاتا ہے کہ جس کا اعتقاد کفر ہے لہٰذا نماز فاسد ہوجائے گی۔

تفسير الجلالين (ص570) ميں ہے:

{قل إن ربي ‌يقذف ‌بالحق} يلقيه إلى أنبيائه {علام الغيوب} ما غاب عن خلقه في السماوات والأرض

تفسیر قرطبی (14/317) میں ہے:

ويقذفون بالغيب) العرب تقول لكل من تكلم بما لا يحقه: هو ‌يقذف ‌ويرجم بالغيب. "من مكان بعيد” على جهة التمثيل لمن يرجم ولا يصيب، أي يرمون بالظن فيقولون: لا بعث ولا نشور ولا جنة ولا نار، رجما منهم بالظن، قال قتادة. وقيل:” يقذفون” أي يرمون في القرآن فيقولون: سحر وشعر وأساطير الأولين

تاج العروس من جواہر القاموس (24/ 241) میں ہے:

‌‌ق ذ ف

قذف بالحجارة يقذف بالكسر قذفا: رمى بها يقال: هم بين حاذف وقاذف، فالحاذف بالعصا، والقاذف بالحجارة، نقله الجوهري، ويقال أيضا: بين حاذ وقاذ، على الترخيم. وقال الليث: القذف: الرمي بالسهم والحصى والكلام وكل شيء، وقوله تعالى: إن ربي يقذف بالحق علام الغيوب قال الزجاج: معناه: يأتي بالحق، ويرمي بالحق، كما قال تعالى: بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه وقوله تعالى: ويقذفون بالغيب من مكان بعيد قال الزجاج: كانوا يرجمون الظنون أنهم يبعثون

لسان العرب (9/ 276)میں ہے:

قذف:قذف بالشيء يقذف قذفا فانقذف:رمى.والتقاذف:الترامي؛أنشد اللحياني: فقذفتها فأبت لا تنقذف وقوله تعالى: قل إن ربي يقذف بالحق علام الغيوب قال الزجاج: معناه يأتي بالحق ويرمي بالحق كما قال تعالى: بل نقذف بالحق على الباطل فيدمغه. وقوله تعالى: ويقذفون بالغيب من مكان بعيد؛ قال الزجاج: كانوا يرجمون الظنون أنهم يبعثون

معارف القرآن (7/314) میں ہے:

 ويقذفون بالغيب من مكان بعيد . قذف کے معنی کوئی چیز پھینک کر مارنے کے آتے ہیں ۔عرب کا محاورہ ہے کہ جو شخص بلا دلیل محض اپنے خیال سے باتیں کرتا ہے اس کو رجم بالغیب اور قذف بالغیب سے تعبیر کرتے ہیں ،کہ یہ اندھیرے میں تیر چلاتے ہیں جس کا کوئی نشانہ نہیں ہوتا۔

ہندیہ(1/80) میں ہے:

ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین” مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved