• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قنوت نازلہ پڑھتے وقت دعا کی طرح ہاتھ اٹھانے کا حکم

استفتاء

میں نے یہ فتوی ( فتاوی دارالعلوم دیوبند153/4 )صبح کی نماز میں بعد رکوع کے جو کہ اس زمانے میں دعائے قنوت پڑھی جاتی ہیں اس میں ہم لوگوں کا معمول یہ ہے کہ ہاتھ لٹکائے رہتے ہیں کیونکہ اس موقع پر ہاتھ  باندھنانہیں آیا اور اٹھانا بھی احناف کے قواعد سے چسپاں نہیں ہے اس لیے یہی احوط اور بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھ چھوڑے رکھے اور مقتدی آمین باخفاء کہیں ایک بھائی کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ میں راولپنڈی تبلیغی جماعت میں تھا وہاں ایک مفتی صاحب ہاتھ اٹھا کر قنوت نازلہ پڑھتے ہیں پوچھنے پر کہا کہ یہ مسنون ہے دلیل میں حدیث دکھائی جو پیش خدمت ہے برائے کرم اس پر رہنمائی فرما دے جزاکم اللہ خیرا

قنوت نازلہ  میں ہاتھ اٹھانا مسنون ہے جیسا کہ حضرت  انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:

 فقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة الغداة رفع يديه فدعا عليهم [مسند احمد،3/137]

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں دیکھا کہ آپ نے ہاتھ اٹھائے اور دشمنان اسلام پر بددعا کی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مسند احمد کی مذکورہ روایت سے قنوت نازلہ میں دعا کے وقت ہاتھ اٹھائے رکھنے پر استدلال درست نہیں کیونکہ اول تو مسند احمد کی روایت میں “فى الصلوة” کے الفاظ نہیں (جیساکہ ذیل میں مکمل روایت ذکر ہے)  جن کا ترجمہ “نماز میں” بنتا ہے بلکہ “كلما صلى الغداة” کے الفاظ ہیں جن کا ترجمہ “جب صبح کی نماز پڑھ لی” بنتا ہے اور دوسرے اس روایت میں “فدعا عليهم” (ترجمہ: پس ان پر بددعا فرمائی) کے الفاظ “رفع يديه” کے بعد ہیں لہٰذا روایت کا ترجمہ یہ بنا کہ “جب  جب آپﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی تو آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے پھر ان لوگوں پر بددعا کی” جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے یہ بددعا  نماز کے بعد کی تھی نہ کہ نماز کے اندر۔ اور اگر اس سے مراد نماز کے اندر قنوت نازلہ کے وقت بھی ہاتھ اٹھانا مراد ہو تو پھر بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپﷺ نے  پوری دعائے قنوت میں ہاتھ اٹھائے ہوں بلکہ صرف اتنا ثابت  ہوتا ہے کہ قنوت نازلہ پڑھنے سے پہلے ہاتھ اٹھائے جیساکہ وتروں میں دعائے قنوت سے پہلے   ایک مرتبہ ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں  یا چونکہ قنوت نازلہ رکوع کے بعد پڑھی جاتی ہے لہذا اس سے  مراد رکوع کے بعد کا رفع یدین ہے جودیگر احادیث کی وجہ سے منسوخ ہوگیا۔

مسند أحمد (19/ 393) میں ہے :

«عن ثابت قال: كنا عند أنس بن مالك فكتب كتابا بين أهله، فقال: اشهدوا يا معشر القراء، قال ثابت: فكأني كرهت ذلك، فقلت: يا أبا حمزة: لو سميتهم بأسمائهم قال: وما بأس ذلك أن»أقول  لكم قراء، أفلا أحدثكم عن إخوانكم الذين كنا نسميهم على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم القراء، فذكر أنهم كانوا سبعين، فكانوا إذا جنح الليل، انطلقوا إلى معلم لهم بالمدينة، فيدرسون فيه القرآن حتى يصبحوا ، فإذا أصبحوا فمن كانت له قوة استعذب من الماء، وأصاب من الحطب، ومن كانت عنده سعة اجتمعوا، فاشتروا الشاة، فأصلحوها فيصبح ذلك معلقا بحجر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أصيب خبيب، بعثهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتوا على حي من بني سليم، وفيهم خالي حرام، فقال حرام لأميرهم: دعني فلأخبر هؤلاء أنا لسنا إياهم نريد، حتى يخلوا وجهنا، – وقال عفان: فيخلون وجهنا ، فقال لهم حرام: إنا لسنا إياكم نريد، فاستقبله رجل بالرمح، فأنفذه منه، فلما وجد الرمح في جوفه قال: الله أكبر فزت ورب الكعبة. قال: فانطووا عليهم فما بقي منهم أحد، فقال أنس: ” فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وجد على شيء قط، وجده عليهم، فلقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما صلى  الغداة رفع يديه  فدعا عليهم “، فلما كان بعد ذلك إذا أبو طلحة يقول لي: هل لك في قاتل حرام؟ قال: قلت له: ما له فعل الله به وفعل قال: مهلا، فإنه قد أسلم، وقال عفان: رفع يده يدعو عليهم، وقال أبو النضر: رفع يديه

اعلاء السنن (6/121) میں ہے:

وأما السابع: فقد قال الحموى تحت قول الاشباه: إذا نزل بالمسلمين نازلة قنت الامام فى صلاة الفجر ما نصه: وينبغى أن يكون القنوت قبل الركوع فى الركعة الاخيرة ويكبر له [ص:399] وهل يكبر له إذا قنت بعد الركوع؟ لم أر من تعرض له ومقتضى النظر أن لا يكبر له حينئذ لان التكبير له إذا فعله قبل الركوع إنما هو للفصل عن القراءة ولاجل الانتقال من حال الى حال ولا كذلك بعد الركوع فإن التسميع هناك كاف للفصل، قلت: وهذا هو الوجه فى عدم رفع اليدين اذا قنت بعد الركوع فان الرفع للاعلام وهناك قيامه يرفع الرأس عن الركوع كاف له ولم نجد فى أثر ما عن أحد من الصحابة أنه كبر للقنوت فى الفجر بعد الركوع، نعم، ثبت عن عمر رضى الله عنه أنه كبر له لما قنت قبل الركوع كما مر………….. فالامر فى رفع اليدين واسع سواء قنت قبل الركوع أو بعده.

“اخبار الفقہاء والمحدثین(الامام الحافظ ابو عبدالله محمد بن حارث الخشنی القيروانی المتوفی 361ھ)”(285) میں ہے:

 قاال حدثني عثمان بن محمد قال: قال لي عبيدالله بن يحيى حدثني عثمان بن سوادة ابن عباد عن حفص بن ميسرة عن زيد بن اسلم عن عبدالله بن عمر رضي الله عنهما قال كنا مع رسول الله صلي الله عليه وسلم بمكة نرفع ايدينا في بدء الصلوة وفي داخل الصلوة عند الركوع فلما هاجر النبي صلي الله عليه وسلم الي المدينة ترك رفع اليدين في داخل الصلوة عند الركوع وثبت علي رفع اليدين في بدء الصلوة‎.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved