• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قرعہ اندازی میں نام نکلوانے کے لیے رشوت دینا

استفتاء

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسائل ذیل کے بارے میں

١۔ حج فرض یا حج ِ نفل کے لیے قرعہ اندازی میں نام نکلوانے کے لیے محکمہ کے افراد کو رقم دینا شرعاً جائز ہو گا یا نہیں؟

عند الزید: حجِ فرض ہو یا حجِ نفل ؛ دونوں کے لیے نام نکلوانے کی خاطر رقم دی جائے تو وہ رشوت کے حکم میں ہو گی۔کیونکہ کہ حج کے لیے جانا جلبِ منفعت ہے، نہ کہ دفع مضرت، کہ اس کی وجہ سے رشوت دینے کی گنجائش ہو۔

عند العمرو: حجِ فرض کی خاطر نام نکلوانے کے لیے رشوت دینے کی گنجائش ہے، کیونکہ یہ مطلوبِ شرع ہے، لیکن حجِ نفل یا عمرہ کے لیے جانے والے کا رشوت دینا جائز نہیں ہو گا کیونکہ یہ محض جلبِ منفعت ہے۔

دونوں میں سے کس کا مؤقف صحیح ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حج فرض یا حج نفل کے لیے قرعہ اندازی میں نام نکلوانے کے لیے محکمہ کے افراد کو رقم دینا جائز نہیں۔ کیونکہ بعض اوقات رقم لے کر محکمہ کے افراد رقم دینے والے کا نام قرعہ اندازہ کی مشین میں فیڈ کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے مشین کے ذریعہ رقم  دینے والے کا نام نکلنا تقریباً یقینی ہو جاتا ہے، اور یہ طریقہ اختیار کرنے میں قرعہ اندازی میں شریک کسی ایک شخص کو محروم ہونا پڑتا ہے، اور محروم ہونے والے شخص میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا اپنا حج بھی فرض ہو۔ نتیجۃً رقم دینے والا شخص، فرض حج کرنے والے کسی دوسرے شخص کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

1۔ فرض حج کی خاطر نام نکلوانے کے لیے رشوت دینے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس شخص کے لیے کسی پرائیوٹ اسکیم کے تحت حج پر جانے کی مالی استطاعت نہ ہو۔ کیونکہ اگر سرکاری قرعہ اندازی میں نام نہ نکلے، اور پرائیویٹ اسکیم کے تحت حج پر جانے کی مالی استطاعت بھی نہ ہو ہو، تو ایسے آدمی کے لیے حج پر جانے کا کوئی قانونی راستہ نہیں۔

لہذا فرض حج کی ادائیگی کے لیے قانونی رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے رشوت دینا جائز ہے، تاہم لینے والوں کے لیے یہ لینا جائز نہیں۔ فتاویٰ شامی میں ہے:

قتل بعض الحجاج عذر في ترك الحج، قوله (عذر في ترك الحج) لأن أمن الطريق شرط الوجوب أو الأداء، لكن الشارح هناك قيد أمن الطريق بغلبة  ولو بالرشوة… إلخ. (10/496، مسائل شتى).

2۔ مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً بکر نے یہ رقم بینک سے نکلوا کر ہی دینی ہے تو ایسی صورت میں بینک جو کٹوتی کرتا ہے اس کی وصول زید سے کی جا سکتی ہے۔

3۔ بینک کا پچاس لاکھ یا زائد رقم پر ’’اے ٹی ایم‘‘ کی فیس کی کٹوتی نہ کرنا اور اس مقدار سے کم رقم پر  ’’اے ٹی ایم‘‘ فیس کی کٹوتی کرنا جائز ہے۔ کیونکہ

 الأمور بمقاصدها کے پیش نظر کرنٹ اکاؤنٹ (Current account) کھلوانے والے کا اصل مقصد بینک کو قرض دینا نہیں ہوتا، بلکہ بینک کے پاس امانت رکھوانا ہوتا ہے، تاکہ بینک اس رقم کی حفاظت بھی کرے اور مطالبہ پر واپس بھی کر دے، پھر اتنا ہے کہ بینک بعینہ اس رقم کو علیحدہ سنبھال کر نہیں رکھتا اور استعمال کر لیتا ہے، تو یہ اس کا اپنا تصرف ہے۔ حامل اکاؤنٹ کے مقصد کو سامنے رکھیں تو یہ ‘‘كل قرض جر نفعاً’’ نہیں بنتا، لہذا کرنٹ اکاؤنٹ میں پچاس لاکھ یا اس سے زائد جمع کرانے کی صورت میں اے ٹی ایم کی فیس کی کٹوتی نہ کرنا شرعاً جائز اور درست ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved