• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قرآن پاک کے بوسیدہ اوراق

استفتاء

اگر کسی آدمی نے قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق دریا برد کر دیئے ہوں  دراں حالیکہ دریا کا پانی عروج پر ہو۔ آیا اس سے  قرآن کریم کی بے حرمتی لازم  آتی ہے یا نہیں؟ مدلل جواب تحریر فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔

واضح رہے کہ یہ کاغذات دریا میں وزن کے ساتھ ڈالے تھے کہ جس سے وہ تیر نے کے بجائے نیچے تہ میں بیٹھ جائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

قرآن پاک کے بوسیدہ اوراق کے بارے میں بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ انہیں کسی کپڑے میں لپیٹ کر ایسی جگہ دفن کر دیا جائے جہاں لوگوں کا چلنے پھرنے  یا نجاست وغیرہ پہنچنے کا امکان نہ ہو۔  اگر اس کے بجائے کسی بڑی نہر یا دریا میں بھی کسی وزنی چیز کے ساتھ ڈال دیئے تو بھی گنجائش ہے۔ اور یہ قرآن پاک کی بے ادبی شمار نہ ہوگی۔

الكتب التي يستغني عنها و فيها اسم الله تعالى تلقى في الماء الكثير الجاري أو تدفن في أرض طيبة ولا  تحرق بالنار، و في التاتارخانية: المصحف الذي خلق و تعذر الانتفاع به لا يحرق بل يلف بخرقة طاهرة و يحفر حفيرة يلحد بلا شق أو يجعل سقفاً و يدفن أو  يوضع بمكان طاهرٍ لا يصل إليه الغبار و الأقذار و في السراجية: يدفن أو يحرق . ملخصاً

كذا عن منية المفتي و عن المجتبى: الدفن أفضل من الإلقاء في الجاري كالأنبياء و كذا جميع الكتب . (فتاویٰ عثمانی، 194/1 )۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved