- فتوی نمبر: 27-204
- تاریخ: 22 جولائی 2022
- عنوانات: عبادات > قربانی کا بیان
استفتاء
آجکل ایک نیا رواج چل نکلا ہے کہ قربانی کے گوشت پر ختم دلوایا جاتا ہے کہ جب قربانی کی جاتی ہے تب گوشت بنا کر اس پر قرآن خوانی کر کے اس کا ایصال ثواب اپنے مرحومین کو كياجاتا ہے۔کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ حالانکہ قربانی تو ایک شخص کے لیے کی جاتی ہے اور اس کا ثواب بھی ایک شخص کو دیا جاتا ہے۔ احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر کسی کو ثواب پہنچانا مقصود ہو تو اس کے نام کی قربانی دی جائے۔ لیکن یہاں یہ ہوتا ہے کہ مثلاً زید نے اپنے نام کی قربانی دی،بعد میں اس نے 5 کلو گوشت علیحدہ کر کے اس پر ختم دلا کر کہا کہ اس گوشت کی تقسیم اور جو آیات پڑھی گئیں، سب کا ثواب میں اپنے ماں باپ کی میت کو دیتا ہوں۔
سوال یہ ہے کہ اس طرح اپنے ثواب میں سے کسی اور کو ثواب تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ یہ نفلی کام نہیں ہے اگر ایسا جائز ہے تو پھر ایک انسان ایک نماز پڑھ کر کہے کہ اس نماز کا 75٪ ثواب مجھے اور 25٪ میرے والدین کو ملے،کیاایسا ہوسکتا ہے؟ایسا تو ہرگز نہیں ہوتا۔اور روزہ رکھ کر کوئی کہے آدھے روزے کا ثواب مجھے ملے اور آدھے روزے کا فلاں کو مل جائے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
قربانی کرکےاپنے مرحومین کو ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے اور ایصال ثواب ایک شخص کو بھی کیا جاسکتا ہے اور ایک سے زائد افراد کو بھی کیا جاسکتا ہے ،اورچاہے قربانی اپنے نام کی کرے اور اس کا ثواب مرحوم کو پہنچائے اور چاہے قربانی ہی مرحومین کے نام کی کرے، دونوں صورتیں درست ہیں البتہ سوال میں ذکر کردہ قرآن خوانی کا یہ طریقہ قرآن وسنت اور سلف صالحین سے منقول نہیں ہے اس لیے یہ جائز نہیں اور بدعت ہے۔
2۔اپنے عمل کا ثواب دوسروں کو پہنچایا جاسکتا ہے،چاہے وه عمل نفل ہو یا فرض، مکمل ثواب پہنچایا جائے یااس کا کچھ حصہ،چنانچہ کوئی شخص صرف پانچ کلو گوشت کی تقسیم کا ایصال ثواب کرنا چاہے تو شرعاً یہ بھی جائز ہے۔
حاشیہ ابن عابدین(9/539)میں ہے:
قال في البدائع لأن الموت لا يمنع التقرب عن الميت بدليل أنه يجوز أن يتصدق عنه ويحج عنه، وقد صح «أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ضحى بكبشين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لم يذبح من أمته» وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح اهـ لأن له – صلى الله عليه وسلم – ولاية عليهم أتقاني
حاشيہ ابن عابدین(3/178)میں ہے:
[تنبيه]صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة، لكن استثنى مالك والشافعي العبادات البدنية المحضة كالصلاة والتلاوة فلا يصل ثوابها إلى الميت عندهما، بخلاف غيرها كالصدقة والحج. وخالف المعتزلة في الكل، وتمامه في فتح القدير۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والظاهر أنه لا فرق بين أن ينوي به عند الفعل للغير أو يفعله لنفسه ثم بعد ذلك يجعل ثوابه لغيره، لإطلاق كلامهم، وأنه لا فرق بين الفرض والنفل. اهـ. وفي جامع الفتاوى: وقيل: لا يجوز في الفرائض اهـ
حاشیہ ابن عابدین(3/179)میں ہے:
ويصح إهداء نصف الثواب أو ربعه كما نص عليه أحمد، ولا مانع منه. ويوضحه أنه لو أهدى الكل إلى أربعة يحصل لكل منهم ربعه فكذا لو أهدى الربع لواحد وأبقى الباقي لنفسه اهـ ملخصا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved