- فتوی نمبر: 23-35
- تاریخ: 25 اپریل 2024
- عنوانات: عبادات > قربانی کا بیان
استفتاء
بچوں کے عقیقے سات دن میں کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ اس وقت استطاعت نہیں تھی جب صاحب استطاعت ہوا تو ایک بچھڑا لے کر چھوڑ دیا اب اس بچھڑے میں قربانی بھی کرنی ہے اور دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کے عقیقے بھی کرنے ہیں بڑا جانور ہے تو اس کے کتنے حصے بنیں گے؟کیا قربانی کے جانور میں عقیقہ بھی ہو سکتا ہے؟اگر ہو سکتا ہے تو بڑے جانور میں دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کے عقیقے اور والدہ کے نام کی بھی قربانی کرنی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
- قربانی کے جانور میں عقیقہ ہو سکتا ہے۔
- اور بڑے جانور میں زیادہ سے زیادہ سات حصے ہو سکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں ہو سکتے لہٰذا مذکوره صورت میں ایک بچھڑے میں ایک قربانی بھی ہو اور دو بیٹیوں کے دو اور تین بیٹیوں کے عقیقے بھی ہوں یہ درست نہیں کیونکہ ایک بیٹے کے عقیقے میں دو حصے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سات حصے تو عقیقے کے ہی بن جائیں گے البتہ ایک بیٹے کے عقیقے میں ایک حصہ کرنے کی بھی گنجائش ہے اس لیے اگر صرف کسی ایک بیٹے کے عقیقے میں ایک حصہ کریں تو ایک قربانی کا حصہ اور دونوں بیٹوں کے عقیقے میں ایک ایک حصہ کریں تو دو قربانیوں کا حصہ بھی نکل سکتا ہے۔
شامی(9/472)میں ہے:وشمل ما لو كانت القربة واجبة على الكل او البعض اتفقت جهاتها او لا:كاضحية واحصار وجزاء صيد وحلق و متعة وقران لان المقصود من الكل القربة و كذا لو اراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل لان ذالك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد
فتاوی قاضیخان(3/350علی ھامش الھندیہ)میں ہے:ولو نوى بعض الشركاء الاضحية،وبعضهم هدى المتعة———وبعضهم دم العقيقة لولادة ولد ولد في عامه ذالك جاز عن الكل في ظاهر الرواية
اعلاء السنن (17/119)میں ہے:يستحب ان يعق عن الغلام شاتان وعن الجارية شاة فان عق عن الغلام شاة حصل أصل السنة
کفایت المفتی(8/243)میں ہے:
لڑکے کے عقیقہ میں دو بکرے یا دو بھیڑیں یادو بکریاں یا بھیڑیں ذبح کرنا مستحب ہے اگر دو کی وسعت نہ ہو تو ایک بھی کافی ہے۔
فتاویٰ محمودیہ (17/521)میں ہے:
قربانی کی گائے میں عقیقہ بھی درست ہے کسی کا حصہ قربانی کا ہو اور کسی کا عقیقہ کا ہو لیکن سات حصوں سے زیادہ نہ ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved