• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قربانی کے لیے صاحب استظاعت کا ہونا

استفتاء

سوال ۔ہمارے ہاں کچھ مذہبی حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ قربانی کے لیے صاحب نصاب ہونا شرط ہے یعنی وہ اتنے  مال کا مالک ہو  کہ وہ زکوۃ ادا کرنے کے قابل ہو اس شرط کی شرعی طور پر کیا حیثیت ہے ؟

جواب ۔اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی کے متعلق بایں  الفاظ حکم دیا ہے” آپ صرف اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں” یہ حکم تمام امت مسلمہ کے لئے یکساں ہے   خواہ وہ صاحب نصاب ہو یا نہ ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی معاشی زندگی انتہائی تنگدستی میں گزاری اس کے باوجود آپ مدنی دور میں برابر قربانی کرتے رہے ۔چنانچہ  حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا  بیان ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں  دس سال قیام فرمایا اور آپ برابر قربانی کرتے رہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی صاحب نصاب نہیں ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں دین اسلام کے ہر حکم پر عمل کیا ہے لیکن آپ نے کبھی زکوۃ نہیں دی کیونکہ زکوۃ صاحب نصاب پر فرض ہے لیکن آپ کبھی صاحب نصاب نہیں ہوئے، اس کے باوجود آپ ہر سال قربانی کرتے اور اس کا بہت اہتمام کرتے تھے ۔اس بنا پر ہمارا رجحان ہے کہ قربانی کے لیے صاحب نصاب ہونے کی شرط محلِ  نظر ہے۔ فتاوی اصحاب الحدیث        (358/3)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ پوسٹ درست نہیں کیونکہ ا للہ تعالیٰ کسی کو ایسے کام کا مکلف نہیں بناتے جس کی اسے وسعت حاصل نہ ہو اور اسی طرح حدیث میں ہے کہ جو شخص وسعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے اب وسعت کا معیار کیا ہے؟ اس کا تعین دیگر احادیث کو سامنے رکھ کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے ساتھ کیا گیا ہے ، باقی آپﷺ جو قربانی کرتے تھے وہ نفلی قربانی ہوتی تھی کیونکہ آپﷺ صاحب استطاعت نہیں تھے اگر صرف آپ ﷺ کے اہتمام کی وجہ سے قربانی کو واجب مانا جائے تو آپﷺ تو ہر سال اہتمام کے ساتھ دو قربانیاں کرتے تھے ایک اپنی اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے اور ایک اپنی امت کی طرف سے اب اگر پہلی قربانی کو واجب کہیں تو لا محالہ دوسری قربانی کو بھی واجب کہنا پڑے گا جس کا کوئی بھی قائل نہیں۔

شرح معانی الآثار (2/ 283رقم الحدیث:6086)میں ہے: حدثنا يونس قال ثنا بن وهب قال ثنا سفيان الثوري عن عبد الله بن محمد بن عقيل عن أبي سلمة بن عبد الرحمن عن أبي هريرة أو عن عائشة رضي الله عنهما : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان إذا ضحى اشتری كبشين عظيمين سمينين أملحين أقرنين موجوءين يذبح أحدهما عن أمته من شهد منهم بالتوحيد وشهد له بالبلاغ والآخر عن محمد وآل محمد

ترجمہ :جب رسول اللہ ﷺقربانی کرتے  تودو بڑے، موٹے تازے ، سینگوں والے ، چت کبرے ، خصی  مینڈھے خریدتے اور ان میں سے ایک  امت  مسلمہ کی جانب سے ذبح فرماتے اور دوسرا اپنی  اور اپنی  آل اولاد  کی جانب سے ذبح فرماتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved