- فتوی نمبر: 33-199
- تاریخ: 21 جون 2025
- عنوانات: عبادات > قربانی کا بیان > قربانی میں شرکت کا بیان
استفتاء
1۔ سات حصے ہیں اور پانچ افراد ہیں باقی دو حصے پانچ کی طرف سے ہیں جن میں سے ایک حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور دوسرا امت کی طرف سے ہے کل سات حصے ہوئے قربانی کا کیا حکم ہے؟
2- گوشت کی تقسیم کا کیا طریقہ ہوگا ؟رقم پانچ افراد کی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ قربانی جائز ہے۔
2۔ مذکورہ صورت میں گوشت پانچ حصوں میں تقسیم ہوگا۔
1۔الدر المختار (9/539) میں ہے:
(وإن) (مات أحد السبعة) المشتركين في البدنة (وقال الورثة اذبحوا عنه وعنكم) (صح) عن الكل استحسانا لقصد القربة من الكل.
(قوله لقصد القربة من الكل) هذا وجه الاستحسان. قال في البدائع لأن الموت لا يمنع التقرب عن الميت بدليل أنه يجوز أن يتصدق عنه ويحج عنه، وقد صح «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لم يذبح من أمته» وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح اهـ لأن له صلى الله عليه وسلم ولاية عليهم.
2۔ ردالمحتار (9/540) میں ہے:
من ضحى عن الميت يصنع كما يصنع في أضحية نفسه من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح. قال الصدر: والمختار أنه إن بأمر الميت لا يأكل منها وإلا يأكل بزازية، وسيذكره في النظم.
غنیۃ الناسک (2/200) میں ہے:
ومن ضحى عن الميت بأمره لزمه التصدق بها وعدم الاكل منها وان تبرع بها عنه يصنع كما يصنع فى أضحية نفسه من التصدق والاكل لانه يقع على ملك الذابح والثواب للميت ولهذا لو كانت على الذابح واجبة سقطت عنه أضحية كما فى الاجناس.
فتاوی محمودیہ( 17/404) میں ہے:
سوال: اگر چند شخص مل کر ساتواں حصہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کریں تو کرنا درست ہے یا نہیں؟ یا ایک ہی شخص اس کی قیمت ادا کرے تب درست ہے؟
الجواب: ایک شخص قیمت ادا کر دے تب بھی درست ہے سب شرکاء مل کر کریں تب بھی درست ہے۔
امدادالفتاوی8/178 میں ہے
سوال: میت کی طرف سے اگر قربانی کی جائے تو اس کے گوشت کی تقسیم کا کیا حکم ہے؟
الجواب: فی الدرالمختار: من ضحى عن الميت يصنع كما يصنع في أضحية نفسه من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح. قال الصدر: والمختار أنه إن بأمر الميت لا يأكل منها وإلا يأكل بزازية، وسيذكره في النظم.
اس روایت سے معلوم ہوا کہ قربانی میت کی طرف سے دو طور پر ہیں ایک یہ کہ میت اپنے ترکہ میں سے قربانی کرنے کی وصیت کرکے مرا اس قربانی کا تمام گوشت مساکین کو دینا واجب ہے دوسرا یہ کہ کوئی شخص اپنے مال سے تبرعا میت کی طرف سے قربانی کرے اس میں قربانی کرنے والے کو اختیار ہے جتنا چاہے کھائے جتنا چاہے دے خواہ خود کھا لے ۔
فتاوی محمودیہ(17/437 ) میں ہے:
سوال: میت کی طرف سے جو قربانی کی جائے تو اس کا گوشت قربانی کرنے والا خود بھی کھا سکتا ہے یا کل کا صدقہ کرنا ضروری ہے؟
الجواب: اگر میت نے وصیت کی تھی کہ میری طرف سے قربانی کی جائے تب تو اس کا تمام گوشت صدقہ کر دیا جائے اگر وصیت نہیں کی تو قربانی کرنے والا خود بھی کھاسکتا ہے بلکہ اس تمام گوشت کا مالک ہے جس طرح اپنی قربانی کے گوشت کا مالک ہے ۔
مسائل بہشتی زیور (1/474) میں ہے
مسئلہ: کوئی شخص اپنے مال میں سے بطور ایصال ثواب میت کی طرف سے قربانی کرے تو اس میں دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اپنی طرف سے ایک حصہ قربانی کر کے اس کا ثواب میت کو پہنچا دے۔ دوسرے یہ کہ اس میت کا نام قربانی کے حصے پر قرار دے کر قربانی کرے. یہ دونوں صورت جائز ہیں اور دونوں صورتوں میں قربانی کرنے والے کو اختیار ہے جتنا چاہے خود کھائے اور جتنا چاہے فقراء کو دے۔
مسئلہ: جو قربانی دوسرے کی طرف سے بطور ایصال ثواب کی جائے چونکہ وہ قربانی کرنے والے کی ملکیت ہوتی ہے اور دوسرے کو صرف ثواب پہنچتا ہے اس لیے قربانی کا ایک حصہ ایک سے زائد لوگوں کی طرف سے کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved