• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قربانی کے شرکاء میں بنیک ملازم کے شریک ہونے قربانی کاحکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سات شرکاء میں سے ایک شریک بینک کا ملازم ہے اس کے ساتھ قربانی کرنا شرعاً کیسا ہے؟یہاں بعض حضرات کہتے ہیں اگر وہ شخص براہ راست سود میں مبتلا ہو تو پھر درست نہیں سب شرکاء کی قربانی خراب ہوگی لیکن اگر وہ بینک میں ایسے عہدے پر فائز ہو جس میں براہ راست سود نہ ہو مثلا ڈرائیور یا چوکیدار یا چپڑاسی تو پھر اس کے ساتھ قربانی کرنا شرعاً درست ہے۔

تحقیقی جواب دے کر مشکور فرمائیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کے ہاں بعض حضرات جو بات کہتے ہیں وہ عام ضابطے کے لحاظ سے درست ہے۔ تاہم بعض اہل علم کے نزدیک بینک کے ملازم کے شریک ہونے سے قربانی خراب نہ ہوگی۔ موجودہ دور میں حرام کی کثرت اور ابتلاء کی وجہ سے ان بعض حضرات کے قول کو لینے کی گنجائش ہے۔

نوٹ: ہماری تحقیق میں بینک کے چوکیدار کی ملازمت جائز نہیں۔

في الشامية7/379

توضيح المسئلة مافي التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه :اما أن دفع تلك الدراهم الى البائع اولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بهاودفعهااواشتري قبل الدفع بها دفع غيرها اواشتري مطلقا ودفع تلك الدراهم أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم……

وقال الكرخى :فى الوجه الاول والثانى لا يطيب ،وفى الثلاث الأخيرة يطيب وقال ابوبكر لا يطيب فى الكل لكن الفتوى الآن على قول الكرخى دفعا للحرج عن الناس

وفى الولوالجية وقال بعضهم :لا يطيب فى الوجوه كلها وهو المختار لكن الفتوى اليوم على قول الكرخى دفعا للحرج لكثرة الحرام وعلى هذا مشى المصنف فى كتاب الغصب تبعا للدرروغيرها

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved