• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قربانی میں ایک کے بکرے کا گوشت دوسرے کو دے دیا تو کیا حکم ہے؟

استفتاء

اس سال عید الاضحی کے موقع  پر زید و بکر نے مختلف دوستوں کی طرف سےتقریباً 80،90 بکروں کی قربانی کی اور  اس میں خریدنا ،ذبح کرنا پھر گوشت بنوانا پھر گھر تک پہنچانا یہ ساری ذمہ داریاں تھیں مگر اس میں دو جگہ گڑبڑ ہوگئی ۔

  1. ذبح کے وقت دو جماعتیں ذبح کر رہی تھیں دس دس بکرے ایک دفعہ کاٹتے تھے رش بہت تھا گرمی بھی شدید تھی دھوپ تھی ہر بکرے کے گلے میں نمبر لگایا تھا مگر اس موقع پر نمبر والی ترتیب ناکام ہوگئی ہم نے رجسٹر پر سب کے نام لکھے تھے تاکہ ذبح سے پہلے ہر نام کو ذبح ہونے والے بکرے کا نمبر دے دیں مگر کام کی تیزی کی وجہ سےاور رش کی وجہ سے ہر نمبر ایک ایک نام کو نہیں دے سکے اورترتیب قابو سے باہر ہوگئی ۔
  2. تقسیم گوشت کے لیے ہم نے ہر بیگ پربھی نمبر لگائے تھے تاکہ ہر ایک کو اسی کے بکرے کا گوشت پہنچے مگر ذبح کے وقت نمبر نہ لگا سکے اس لیےبغیر نمبر کے ہی ایک ایک گوشت کا بیگ ایک ایک آدمی کو دےدیا۔

نوٹ:تمام بکرے  قیمت اور وزن میں تقریبا برابر تھے،اب شرعاً کیا حکم ہے؟رہنمائی فرمائیں

وضاحت مطلوب ہے کہ (1) کیا رجسٹر میں لوگوں کے نام اسی ترتیب سے لکھے تھے جس ترتیب سے بکرے کے گلے میں نمبر لگایا تھا؟ (2)             کیا ہر بیگ میں سری پائے، کلیجی، دل وغیرہ بھی تھے یا صرف صافی گوشت تھا؟

جواب وضاحت :  (1)  ہمارا ارادہ یہی تھا کہ ذبح کے وقت ایک ایک ابکرا ایک ایک آدمی کے لیے مقرر کردیں گے لیکن ایسا نہیں کر سکے۔ (2) ہر بیگ میں مکمل بکرا تھا، کلیجی، گردہ وغیرہ۔ البتہ سری پائے پھینک دیے جس نے مانگے اس کو دیدیے اکثر لوگوں نے نہیں لیے۔ شروع میں تقریباً 20 بکرے لوگوں کے نام پر مقرر کیے پھر اس کے بعد تقریباً 10 بکرے اس نیت سے کاٹے کہ اس کے بعد والے نام کا یہ بکرا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ زید وبکرمختلف دوستوں کی طرف سے قربانی کرنے کےوکیل تھے اورانہوں نے سب دوستوں کی طرف سے ایک ایک بکراقربان بھی کردیا،اس لیے قربانی تو درست ہوگئی ،البتہ مذکورہ صورت میں چونکہ نمبروں والی ترتیب بے قابوہوگئی جس کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ ایک کے بکرے کاگوشت دوسرے کو اس کی دلی رضامندی کےبغیر چلاگیا ہولہذا اگرمذکورہ دوستوں کارابطہ نمبر ہوتوسب کو اطلاع کردی جائے کہ وہ اس تقسیم کو دلی رضامندی سے قبول کرلیں اورکمی بیشی کو معاف کردیں ۔اوراگرایسا ممکن نہ ہو تو خود توبہ واستغفار کریں اورآئندہ بہرحال احتیاط کریں۔

عالمگیری (5/306)میں ہے:

اشترى كل واحد منهم شاة للأضحية أحدهم بعشرة والآخر بعشرين والآخر بثلاثين وقيمة كل واحدة مثل ثمنها فاختلطت حتى لا يعرف كل واحد منهم شاته بعينها واصطلحوا على أن يأخذ كل واحد منهم شاة فيضحي بها أجزأتهم ويتصدق صاحب الثلاثين بعشرين وصاحب العشرين بعشرة ولا يتصدق صاحب العشرة بشيء وإن أذن كل واحد منهم لصاحبه أن يذبحها عنه أجزأهم ولا شيء عليهم۔ ولو اشترى عشرة عشر أغنام بينهم فضحى كل واحد واحدة جاز ويقسم اللحم بينهم بالوزن وإن اقتسموا مجازفة يجوز إذا كان أخذ كل واحد شيئا من الأكارع أو الرأس أو الجلد وكذا لو اختلطت الغنم فضحى كل واحد واحدة ورضوا بذلك جاز كذا في خزانة المفتين وفي الأضاحي للزعفراني اشترى سبعة نفر سبع شياه بينهم ولم يسم لكل واحد منهم شاة بعينها فضحوا بها كذلك فالقياس أن لا يجوز وفي الاستحسان يجوز فقوله اشترى سبعة نفر سبع شياه بينهم يحتمل شراء كل شاة بينهم ويحتمل شراء شياه على أن يكون لكل واحد شاة ولكن لا بعينها فإن كان المراد هو الثاني فما ذكر في الجواب باتفاق الروايات لأن كل واحد منهم يصير مضحيا شاة كاملة وإن كان المراد هو الأول فما ذكر من الجواب على إحدى الروايتين فإن الغنم إذا كانت بين رجلين ضحيا بها ذكر في بعض المواضع أنه لا يجوز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط والله تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved