• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

رافعہ نام رکھنا کیسا ہے؟

  • فتوی نمبر: 29-324
  • تاریخ: 02 ستمبر 2023

استفتاء

رافعہ نام رکھنا کیسا ہے ؟آپ کے دارالافتاء سے "رافعہ” نام رکھنے کو جائز بتایا گیاہے حالانکہ دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ درج ذیل ہے  جس میں رافعہ نام رکھنے کو نامناسب کہا ہے اس کی تحقیق ہو جائے تو مہربانی ہوگی۔

سوال:اللہ کے فضل و کرم سے میرے گھرمیں رمضان میں ایک لڑکی پیدا ہوئی ہے، مجھے اللہ پاک کا صفاتی نام ” رافعہ “ بہت اچھا لگ رہا ہے، کیا میں اپنی لڑکی کا نام رافعہ رکھ سکتاہوں؟اس نیت سے کہ اللہ پاک اس کے ذریعہ سے اسلام کو بلندی عطا فرمائیں گے اور اللہ کا نام رکھنے پر حدیث شریف میں جو فضیلت آئی ہے، کیا وہ فضیلت حاصل ہوگی؟ براہ کرم، جواب دیں۔

فتوی(ل): 103=57-2/1433 لڑکی کا ”رافعہ“ نام رکھنا مناسب نہیں، آپ اس کی جگہ رابعہ، عائشہ، سارہ، میمونہ، وغیرہ ناموں میں سے کوئی نام رکھ دیں: عن جابر رضي  الله عنه قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم: لأنهين أن یسمی رافع، وبرکة ویسار․ (ترمذی شریف: ۲/۱۱۰)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

دارالعلوم دیوبند نے  اپنے فتوی میں رافعہ نام رکھنے کو ناجائز نہیں کہا، صرف نامناسب  کہا ہے جوجواز کے منافی نہیں ہے البتہ ہمارے نزدیک رافعہ نام رکھنا نامناسب بھی نہیں ہے۔

توجیہ:دارالعلوم دیوبند کے فتویٰ میں مذکور حدیث کا ترجمہ  یہ ہے کہ” حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  وہ فرماتے ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؛ میں ضرور  رافع، برکہ اور یسار نام رکھنے سے منع کروں گا ”

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث  مسلم میں  بھی ہے اس میں مزید تفصیل  ہے :

أخبرني أبو الزبير؛ أنه سمع جابر بن عبد الله يقول:أراد النبي صلى الله عليه وسلم أن ينهى عن ‌أن ‌يسمى ‌بيعلى، وببركة، وبأفلح، وبيسار، وبنافع. وبنحو ذلك. ثم رأيته سكت بعد عنها. فلم يقل شيئا. ثم قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم ينه عن ذلك. ثم أراد عمر أن ينهى عن ذلك. ثم تركه

ترجمہ:”حضرت ابو زبیر  کہتے ہی کہ  حضرت جابر بن عبداللہ  کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے   یعلی، برکہ،افلح،یسار، نافع اور ان جیسے دوسرے ناموں  سے منع کرنے کا ارادہ کیا ، پھر میں نے دیکھا کہ  بعد میں آپ نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی اور کچھ نہیں کہا  ،یہاں تک کہ آپ کا وصال ہوگیا اور آپ نے اس سے منع نہیں کیا  پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن اس  ارادہ کو  چھوڑ دیا”

اوّلاً توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ ناموں سے منع  کا  صرف ارادہ کیا تھا  منع نہیں کیا  تھا نیز آپﷺ کا ممانعت کا ارادہ بھی کراہت تنزیہی کی وجہ سے تھا، کراہت تحریمی کی وجہ سے نہیں تھا۔ جب آپ ﷺ نے منع نہیں کیا تو  رافعہ نام رکھنا منع نہیں ۔

نیز مذکورہ حدیث  میں ذکر کیے گئے نام صحابہ کرام کے ناموں میں  ملتے  ہیں  اس لیے محدثین مذکورہ حدیث سے ان ناموں کی ممانعت نہیں سمجھتے۔

المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم(5/461) میں ہے:

فإن قيل: بل المصير إلى النسخ أولى؛ لأنَّ حديث سمرة وإن حمل على الكراهة فحديث جابر يقتضي الإباحة المطلقة؛ لأنَّه لما سكت النبي صلى الله عليه وسلم عن النهي عن ذلك إلى حين موته، وكذلك عمر رضي الله عنه مع حصول ذلك في الوجود كثيرًا، فقد كان للنبي صلى الله عليه وسلم غلام اسمه: رباح، ومولى اسمه: يسار، وقد سَمَّى ابن عمر مولاه: نافعًا. ومثله كثير. فقد استمر العمل على حديث جابر، فإذًا هو متأخر، فيكون ناسخًا.

والجواب: إن هذا التقدير يلزم منه: أن لا يصدق قول جابر: إن النبي صلى الله عليه وسلم أراد أن ينهى عن ذلك، فإنَّه قد وجد النهي ولا بدَّ، وهو صادق، فلا بدَّ من تأويل لفظه. وما ذكرناه أولى. وما ذكر من تسمية موالي النبي – صلى الله عليه وسلم – وغيره بتلك الأسماء فصحيح؛ لأنَّ ذلك جائز، وغاية ما ترك فيه الأولى، فكم من أولى قد سوغت الشريعة تركه، وإن فات بفوته أجر كثير، وخير جزيل؛ عملًا بالمسامحة والتيسير، وتركًا للتشديد والتعسير

اکمال المعلم(7/13) میں ہے:

دليل أنه ‌ترك ‌النهى، وأن نهيه أولاً إنما كان نهى تنزيه وترغيب

مرقاۃ المفاتیح (رقم الحدیث 4754) میں ہے:

– (وعن جابر – رضي الله عنه – قال: أراد النبي – صلى الله عليه وسلم – أن ينهى عن ‌أن ‌يسمى ‌بيعلى) : بالفتح مضارع علي في الشرف بالكسر (وببركة) : بعدم الصرف وكذا قوله: (وبأفلح) : وأما قوله: (وبيسار) : فالياء أصلية فصرف (وبنافع ونحو ذلك) أي: وبمعنى ما ذكر من الأسماء كما سبق بعضها (ثم رأيته سكت بعد) : بالضم مبنيا، أي: بعد إرادته النهي عن التسمية بما ذكر (عنها) أي: سكت عن الأسماء المسطورة وغيرها، ولم يصرح بنهي ولا بجواز (ثم قبض) أي: توفي (ولم ينه عن ذلك) أي: عما ذكر من الأسماء. قال الطيبي: كأنه رأى أمارات وسمع ما يشعر بالنهي، ولم يقف على النهي صريحا؛ فلذا قال ذلك، وقد نهاه – صلى الله عليه وسلم – في الحديث السابق لسمرة، وشهادة الإثبات أثبت. قلت: وله وجه آخر من التأويل، وهو أنه أراد أن ينهى نهي تحريم، ثم سكت بعد ذلك رحمة على الأمة لعموم البلوى، وإيقاع الحرج، لا سيما وأكثر الناس ما يفرقون بين الأسماء من القبح والحسن، فالنهي المنفي محمول على التحريم، والمثبت على التنزيه

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved