- فتوی نمبر: 24-29
- تاریخ: 21 اپریل 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
‘مريم (فرضى نام )محمود صاحب کی ربیبہ ہے اور ’’اریبہ‘‘ ، ’’ مريم ‘‘ کی بہو ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا اریبہ کا محمود صاحب سے پردہ ہے؟
مزيد وضاحت یہ ہے :
اریبہ میری بیٹی ہے ،محمود صاحب کے ہاں اولاد نہیں ہوئی ان کی بیوی کے پہلے شوہر سے اولاد ہے ،محمود صاحب نے اپنی بہن سے بیٹا گود لیا اور اسے بیوی کے پہلے شوہر سے جو بیٹی تھی "مريم ” اس کا دودھ پلالیا يوں وہ بچہ بیوی کا نواسہ ہو گیا، اب اس لڑکے سے میری بیٹی اریبہ کی شادی ہو رہی ہے ،گھر میں صرف محمود صاحب، ان کی بیوی اور وہ لڑکا رہتے ہیں،
اب سوال یہ ہے کہ کیا محمود صاحب سے اریبہ کا پردہ ہوگا، اریبہ کی عمر 16 سال ہے جبکہ محمودصاحب کی عمر تقریبا 57 سال سے زیادہ ہوگی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اریبہ محمودصاحب کی محرم نہیں بنتی اسکی تین وجوہات ہیں :
1) اریبہ محمودصاحب کے منہ بولے بیٹے کی بیوی ہے حقیقی یا رضاعی بیٹے کی بیوی نہیں ہے۔
2)مريم محمودصاحب کی ’’ربیبہ‘‘ ہے اور ’’ربیبہ‘‘ سے مراد بیوی کی مؤنث فروع ہوتی ہیں۔جبکہ ’’اریبہ‘‘ ’’محمودصاحب‘‘ کی بیوی کی مؤنث فروع میں شامل نہیں ہےـ
3) ”اریبہ”محمودصاحب” کے رضاعی نواسے کی بیوی بھی نہیں ہے ـ کیونکہ ”اریبہ” کا شوہر ”مريم ” کے حقیقی والد کا رضاعی نواسہ بنتا ہے نہ کہ ”محمودصاحب” کا۔
لہذا ”اریبہ” محمودصاحب” کی محرم نہیں ہے۔لیکن مذکورہ صورت حال کے مطابق خانگی کاروبار کی ضرورت اور مجبوری کے پیش نظر اتنی گنجائش ہے کہ اریبہ ایک بڑی چادر اوڑھ کر اپنا سر وغیرہ اچھی طرح ڈھانپ لے اور اپنا چہرہ ’’ہاتھ ‘‘ پاوں کھلے رکھے۔
درمختار مع ردالمحتار(4/392:مکتبہ رشیدیہ)میں ہے،
"قال الحصکفی: (و) يثبت (أبوة زوج مرضعة) إذا كان (لبنها منه له) وإلا لا كما سيجيء
قال ابن عابدین: قوله : (وأبوة زوج مرضعة لبنها منه) المراد به اللبن الذي نزل منها بسبب ولادتها من رجل زوج أو سيد فليس الزوج قيدا بل خرج مخرج الغالب بحر .وأما إذا كان اللبن من زنا ففيه خلاف سيذكره الشارح ؛ ويأتي الكلام فيه (قوله له) أي للرضيع وهو متعلق بالأبوة ح أي لأنه مصدر معناه كونه أبا ط.
بیان القرٓن (سورہ نسا آیت نمبر ۲۳)میں ہے:
(قسم سوم محرمات بالمصاہرہ وہ یہ ہیں)تمہاری بیبیوں کی مائیں (اس میں زوجہ کے سب مؤنث اصول آگئے) اور تمہاری بیبیوں کی بیٹیاں (اس میں زوجہ کےسب مؤنث فروع آگئے)
امداد الفتاوی(181/4)میں ہے:
عورت کے لئے حکم اصلی احتجاب واستتار بجمیع اعضائہا وارکانہا ثابت ہے ،البتہ جہاں ضرورت شدیدہ ہو یا بسبب کبر سن کے متعلق احتمال فتنہ اشتہا کا باقی نہیں وہاں وجہ وکفین کا کشف جائز ہے ،اور یہی مطلب ہے ان کے ستر نہ ہونے کا۔
اس سے جواب سوال کا واضح ہوگیا کہ مشتہات عورت کا اجنبی کے روبرو آنا ازروئے قرآن وحدیث وفقہ ناجائز ہے،
اور ضرورت میں برقعہ اوڑھ کر نکلے، البتہ جہاں ضیق ہو یا معمر زیادہ ہووہاں جائز ہے۔
مسائل بہشتی زیور(452/2) میں ہے:
مسئلہ: اگر بہت مجبوری ہو مثلا مشترکہ گھر ہونے کی وجہ سے کوئی رشتہ دار کثرت سے گھر میں آتا جاتا رہتا ہے اور گھر میں تنگی ہے کہ ہر وقت کا پردہ نبھ نہیں سکتا، ایسی حالت میں جائز ہے کہ اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ کلائی کے جوڑ تک، دونوں پاؤں کے ٹخنے کے نیچے تک کھولے رکھے اور اس کے علاوہ اور کسی حصے کا کھولنا جائز نہ ہوگا، بس ایسی عورتوں کو لازم ہے کہ سر کو خوب ڈھانکیں، کرتہ بڑی آستین کا پہنیں اور کلائی اور ٹخنے نہ کھلنے پائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved