- فتوی نمبر: 6-184
- تاریخ: 26 اکتوبر 2013
- عنوانات: عبادات > حج و عمرہ کا بیان
استفتاء
1۔ برطانیہ کے چند بلند پایہ بزرگ و علماءِ کرام یہ بات فرما رہے ہیں کہ اس وقت دنیا کے اکثر مسلم ممالک نے خود چاند کو دیکھنے کی بجائے سعودی عرب کی پیروی میں عیدین ادا کرنی شروع کر دی ہیں، لہذا اب یہی دین جائے گا اسی میں عافیت ہے، چونکہ فتنہ کا دور ہے۔ فتنہ سے بچنے کا یہی علاج ہے کہ جب سعودیہ سے اطلاع آئے عیدین ادا کر لینی چاہیے۔ ان کا یہ فرمانا اور عمل کرنا شرعاً مناسب و درست ہے؟ یا یہ بی ایک نیا فتنہ ہے؟ (عرصہ پچیس سال کا ریکارڈ ہے کہ سعودیہ نے ہمیشہ عیدین ام القریٰ کیلنڈر کے مطابق کیں، چار دفعہ مقدم کی نیو مون سے پہلے، دو دفعہ مؤخر کی، پوری برطانیہ میں ایک دن عید ہو گئی وگرنہ پورے ملک میں اکثر دو عیدین ہوئیں)۔
2۔ سورج غروب و چاند غروب کے اوقات جو ماہرین فلکیات بتاتے ہیں تمام ماہرین کے مطابق جیسے نیو مون پر اتفاق ہے اسی طرح اس پر بھی اتفاق ہے (یہ بات عقلی و حسی بھی ہے)۔
یہ ہوتا ہے کہ عمر تو چاند کی پانچ دس گھنٹے ہو چکی ہوتی ہے، لیکن چاند، سورج سے کئی کئی منٹ پہلے غروب ہو چکا ہوتا ہے، کیا ایسے وقت میں ایک دو گواہی قبول کی جا سکتی ہے؟ کیا چاند دیکھا جانا ممکن ہوتا ہے؟ جبکہ سورج سے پہلے غروب ہو چکا ہو؟ امسال ترکی میں چاند، سورج سے چار منٹ پہلے غروب ہو چکا تھا، پھر بھی اگلے دن عید کی اور ترکی کی پیروی میں دیگر گیارہ ملکوں نے عید الفطر کی۔ سعودیہ کی پیروی میں 41 ممالک نے، نیو مون سے پہلے تین ممالک نے، جبالی طریقہ پر 9 ممالک نے۔
3۔ بعض ممالک دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم چاند دیکھ کر اعلان کرتے ہیں، لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر چاند افق پر ایک منٹ بھی سورج غروب کے بعد رہ جائے تو پہلی تاریخ شروع کر دیتے ہیں۔ کیا یہ چاند دکھائی دے سکتا ہے؟ چونکہ اب سائنس نے بہت ترق کی، ہر بات سامنے آ جاتی ہے عمل بھی اور اوقات کی اطلاع بھی۔
4۔ سنی سنائی بات نہیں خود ہر بار نوٹ کیا 1995ء تک کئی بار ایسا ہوا کہ پوری ملک سعودی عرب میں چاند کی پیدائش سورج غروب کے کئی گھنٹے بعد ہوئی اور اگلے دن رمضان المبارک یا عیدین کا اعلان ہو گیا مثلاً 1993ء میں اگست میں ساڑھے تین گھنٹے بعد چاند کی پیدائش تھی۔ ایسا بھی ہوا چاند کی عمر ابھی ایک گھنٹہ سے بھی کم ہے اور چاند غروب بھی سورج سے پہلے ہو رہا ہے، پھر بھی اگلے دن عید الفطر کا اعلان ہو گیا، جیسا کہ 2004ء میں ہوا کہ چاند کی عمر صرف 13 منٹ تھی اور غروب 9 منٹ غروب سورج سے پہلے تھا، پھر بھی عید الفطر اگلے دن منائی گئی، اس کی پیروی میں پورے شہر گلاسکو میں عید منائی گئی، سوائے ایک مسجد کے۔ کیا ایسا چاند دیکھا جانا ممکن ہے؟ اور ایسا اتباع جائز ہے؟ نیز فقط ایک مسجد کا ایک دن بعد عید ادا کرنا غلط تھا جبکہ رمضان المبارک کا روزہ ضائع ہو رہا تھا، نیز قریب ترین ملک مراکش میں بھی چاند نظر نہ آیا تھا۔
5۔ ایک ٹرسٹ کے زیرِ نگرانی دو مساجد چل رہی تھی۔ ایک مسجد کا امام سال ہا سال سے فی سبیل اللہ پوری مسجد کا نظام چلا رہا ہے، اب عمومی طور پر سعودیہ کی پیروی میں عیدین شروع ہو گئیں ہیں۔ اس امام کو جو ہر مرتبہ سعودیہ کی پیروی نہیں کرتا تھا، حکماً کہا گیا کہ تم عید الگ اس مسجد میں نہیں پڑھ سکتے، اسی روز پڑھو گے جب سعودیہ سے اعلان ہو گا۔ ہم ایک دن کے لیے عید کے لیے امام بھیج دیں گے تم چاہو اپنے طور پر عید ادا کرو۔ اس امام کے بارے میں شرعاً کیا حکم ہے؟ اور ایسی انتظامیہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ امام مسجد کو فی سبیل اللہ اس لیے چلا رہا ہے کہ انتظامیہ امام کی تنخواہ نہیں دے گی یا مسجد ویران ہو جائے گی، ہو سکتا ہے مال کی فروانی ہے نیا امام لے آئیں۔ بہر حال انتظامیہ کا یہ فیصلہ کہاں تک درست ہے؟ نیز امام کو کیا کرنا چاہیے؟ مسجد کا سارا چندہ ٹرسٹ کو جاتا ہے۔
6۔ پہلے وسائل کم تھے اب پتہ چلا کہ 11 جنوری بروز بدھ 1967ء میں جو سعودیہ نے عید کی تھی چاند کی پیدائش سے پہلے کی تھی، اس لیے پانچ علماء جیل گئے جبکہ انہوں نے 13 جنوری بروز جمعۃ المبارک کو ادا کی ایوبی دور میں پاکستان میں۔ دیکھیے منسلکہ شیٹ۔
نیو مون تھا 10 جنوری منگل 67ء 9بجکر 6 منٹ پر جبکہ سورج غروب ۔۔۔۔ 5 بجکر 56 منٹ۔
اب کئی سالوں سے اس طریقہ کو بدل کر یہ کر دیا ہے کہ مکہ مکرمہ میں چاند، سورج کے ایک منٹ بعد غروب ہو گیا نئی تاریخ شروع ہو گئی۔
7۔ حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ باوجود سعودیہ کے چاند کا اعلان بعض اوقات خلافِ واقع ہونے کا اظہار فرماتے ہیں اور قابل عمل قرار نہیں دیتے تھے، لیکن سعودیہ کے رہنے والوں یا وہاں پر جانے والوں کے لیے یہی فتویٰ تھا کہ وہ سعودیہ ہی کے مطابق عمل کریں، اسی فتویٰ کو لے کر برطانیہ کے بعض علماء پورا سال سعودیہ کے عیدین و رمضان کے مطابق عمل شروع کر دیا ہے۔ جناب مفتی محمد رضوان راولپنڈی، جناب سید شبیر احمد کا کاخیل چند دیگر ماہرین فلکیات فرماتے ہیں کہ چاند کی پیدائش نیو مون سے پہلے کی گواہی کو ردّ کر دیا جائے گا، جن دنوں مفتی رشید احمد رحمہ اللہ نے فتویٰ جواز کا دیا تھا، اس وقت بھی سعودیہ (نیو مون) سے پہلے اعلان کیا کرتا تھا، اگرچہ ہمیشہ نہیں لیکن اکثر تو کیا، اس وقت حضرت رحمہ اللہ کے سامنے یا علم میں یہ بات نہ تھی؟
سالہا سال سعودیہ کا یہی عمل اعلان عیدین کے بارے میں اور ام القریٰ کیلنڈر رہا ہے کہ جب برطانیہ لندن میں رات کے بارہ بجے سے پہلے نیو مون ہو جائے تو پہلی تاریخ قرار پاتی تھی اب 2005ء سے یا چند سال پہلے یہ طریقہ بدل کر یہ اختیار کیا ہے کہ جب مکہ مکرمہ میں چاند افق پر ایک منٹ بھی سورج غروب کے بعد رہ جائے تو پہلی تاریخ قرار پاتی ہے، دیگر درجنوں ممالک اسی کے مطابق اعلان کر دیتے ہیں۔ یہ بات کئی حضرات علماء کرام سالہا سال سے دونوں باتوں یعنی حسابی علم اور سعودیہ کے اعلان کا ریکارڈ رکھتے آ رہے ہیں، پھر عقل سے بالا تر ہے کہ اب بھی ہمارے دار الافتاء ہر ماہ پورا سال ہر وقت سعودیہ کے مطابق برطانیہ والوں کے لیے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔ قریب ترین ملک مراکو (مراکش) ساؤتھ افریقہ، اومان، ایران، پاکستان وغیرہ میں کہیں چاند نظر نہیں آتا۔ دیگر ممالک سعودیہ کی پیروی کرتے ہیں۔ خدارا آپ ہماری رہنمائی فرمائیں، ہمارے ہاں ہر سال اسی جواز کے فتویٰ کی وجہ سے دو عیدیں اور لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔
8۔ رؤیتِ ہلال کمیٹی پاکستان اگر سعودیہ کی پیروی میں اعلان کر دے تو کیا پھر بھی ان کے فیصلہ کو ماننا واجب ہو گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپ کی طرف سے استفسار میں دوسرے فریق پر جو اعتراض کیے گئے ہیں دوسرے فریق نے اپنی کتاب "شرعی ثبوت ہلال، تاریخ فلکیات و جدید تحقیق” میں (جس کی ناشر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی برطانیہ ہے) کے جواب دیے ہیں۔ میں کسی ایک جانب کو درست قرار دوں اور دوسری جانب کو غلط قرار دوں اس سے آپ کا مسئلہ تو حل نہیں ہو گا، البتہ تنازعہ کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا۔ جو حضرات سعودیہ کی رؤیت کے اتباع کو ترجیح دیتے ہیں اگر وہ اکثریت میں ہیں تو میری رائے یہ ہے کہ آپ حضرات بھی ان کے ساتھ موافقت کر لیں۔ اس سے آپ کو چند فائدے حاصل ہوں گے:
i۔ آپ کا آپس کا اختلاف ختم ہو جائے گا۔
ii۔ شماتت اعداء (کفار) سے بچاؤ ہو گا۔
iii۔ مسلمان پبلک بھی انتشار سے بچے گی اور اسلام کی طرف ترغیب میں یہ رکاوٹ دور ہو گی۔
iv۔ اس ایثار پر آپ لوگوں کو اجر و ثواب ملے گا۔
یہ طریقہ بھی کوئی نیا نہیں ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حج کے موقع پر کسی وجہ سے ظہر کی پوری نماز پڑھائی، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ان سے اختلاف ہوا، لیکن انہوں نے اپنی علیحدہ نماز نہیں پڑھی بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے ہی نماز پڑھی۔
پھر مسجد حرام کے امام و خطیب شیخ محمد عبد اللہ السبیل کی تحریری وضاحت مورخہ 1420ھ کی موجود ہے، جو مذکورہ بالا کتاب کے صفحہ 132 تا 134 پر موجود ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved