• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

رمضان سے پہلے فدیہ کی ادائیگی کا حکم

استفتاء

کیا روزوں کا فدیہ رمضان سے پہلے ادا کرنا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

روزوں کا فدیہ  رمضان سے پہلے ادا نہیں کر سکتے۔ رمضان شروع ہونے کے بعد ادا کر سکتے ہیں چاہے رمضان کے شروع میں ادا کریں یا آخر میں۔

فتاویٰ عالمگیری (1/208) میں ہے:

الشيخ الفاني الذي لا يقدر على الصيام يفطر ويطعم لكل يوم مسكيناً كما يطعم في الكفارة كذا في الهداية ثم إن شاء أعطى الفدية في أول رمضان بمرة وإن شاء أخرها إلى آخره كذا في النهر الفائق.

خیر الفتاویٰ (4/89) میں ہے:

’’سوال: ایک شخص جو بوجہ ضعف اور عمر رسیدگی کے روزہ نہیں رکھ سکتا کیا وہ رمضان آنے سے قبل فدیہ دے سکتا ہے؟ (2) یا وہ رمضان المبارک میں فدیہ دے؟ (3) رمضان المبارک گذرنے کے بعد فدیہ دے؟ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر واقعتاً وہ اس حالت کو پہنچ گیا ہو کہ روزہ کے بجائے فدیہ دینا اس کے لیے جائز ہو تو رمضان آنے سے پہلے تو فدیہ نہیں دے سکتا کیونکہ ابھی اس کو وجوب ہی نہیں ہوا اور قبل الوجوب ادا صحیح نہیں۔ ہاں رمضان آنے کے بعد چاہے شروع میں دے دے چاہے آخر میں ۔ (قوله: ولو في أول شهر) أي يخير بين دفعها في أوله أو آخره كما في البحر. شامية: 2/130‘‘

(احسن الفتاویٰ4/445) میں ہے:

’’سوال: رمضان کے روزوں کے فدیہ کی رقم اگر رمضان آنے سے پہلے ایڈوانس میں دیدے تو صحیح ہے یا نہیں؟ یعنی ابھی روزے نہیں آئے اور روزوں کا فدیہ پہلے ہی دیدیا۔

الجواب: فدیہ بدلِ صوم ہے، اور سببِ وجوبِ صوم شہود ہے، لہذا رمضان شروع ہونے سے قبل فدیہ دینا  قبل وجود السبب ہونے کی وجہ سے درست نہیں، البتہ رمضان شروع ہونے پر آئندہ ایام کا فدیہ بھی دفعۃً دے سکتے ہیں۔۔۔۔ الخ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved