• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

رمضان کے روزے چھوڑنے اور رکھ کر توڑنے کا حکم

استفتاء

ایک شخص جس کی عمر تقریبا 40-45سال ہے اس نے رمضان کے کچھ روزے رکھے ہیں،کچھ چھوڑے ہیں اورکچھ رکھ کر توڑے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ کتنے روزے چھوڑے اور کتنے رکھ کر توڑے ہیں۔وہ شخص کمزور اور نسوار کا عادی ہےاب وہ ان روزوں کی قضاء رکھے گا یا کفارہ دے گا۔اگر قضاء کرے تو کتنے روزوں کی اور اگر کفارہ دے گا تو کتنا دے گا؟کیونکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کتنی عمر میں بالغ ہوا تھا اور اس کے ذمے کتنے روزے ہیں۔

وضاحت:40-45سال کے ہیں تو ان کو کیا کمزوری ہے؟کیا روزہ بالکل نہیں رکھ سکتے؟کیا سردی کے دنوں میں بھی نہیں رکھ سکتے اور سردی کے موسم میں مسلسل کتنے روزے رکھ سکتے ہیں؟

جواب وضاحت:مذکورہ شخص کی قوت باہ بچپن سے ختم ہو چکی ہے،جب نسوار نہ لے تو بخارہو جاتا ہے،رات کو عموما بخار ہوتا ہےنیز تین چار دن روزہ رکھے تو پیشاپ میں جلن شروع ہو جاتی ہے۔اسکی کوئی اولاد بھی نہیں غریب آدمی ہے مزدوری،زراعت بھی کرنی پڑتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ شخص اپنے غالب گمان پر عمل کرے کہ غالب گمان کے مطابق پندرہ سال کی عمر سے لیکر اب تک کتنے روزے چھوڑے ہیں اور کتنے توڑے ہیں۔جتنے روزے چھوڑے ہیں وہ سردی کے دنوں میں یا مزدوری سے چھٹی کے دنوں میں قضاء کرے اور جتنے روزے رکھ کر توڑے ہیں ان کا کفارہ ادا کرے۔مذکورہ شخص کے لیے ایک روزہ کا کفارہ ساٹھ مسکینوں کو پیٹ بھر کر دو وقت کا کھانا کھلانا یا ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر کےبرابر غلہ یا اس کی قیمت دینا ہے۔

نوٹ: مسلسل ساٹھ دن تک کھانا کھلانا ضروری نہیں بلکہ متفرق ایام میں بھی کھانا کھلانے سے کفارہ ادا ہوجائے گا لیکن اتنا ضرور ہے کہ جس مسکین کو صبح کھانا کھلائے شام کو بھی اسی کو کھلائے اسی طرح صدقۂ فطر کے برابر  غلہ یا قیمت دینے میں بھی  تسلسل شرط نہیں بلکہ متفرق ایام میں بھی دے سکتے ہیں لیکن صدقۂ فطر سے کم نہ دے۔

در المختار مع تنوير الأبصار(5/146)میں ہے:

(فإن عجز عن الصوم) لمرض لا يرجى برؤه أو كبر(أطعم) أي ملك (ستين مسكينا)ولو حكما، ولا يجزئ غير المراهق.بدائع (كالفطرة) قدرا ومصرفا (أو قيمة ذلك) من غير المنصوص، إذ العطف للمغايرة (وإن) أراد الاباحة ف (- غداهم وعشاهم)أو غداهم وأعطاهم قيمة العشاء أو عكسه، أو أطعمهم غداءين عشاءين أو عشاء وسحورا وأشبعهم (جاز) بشرط إدام في خبز شعير وذرة لا بر (كما) جاز (لو ‌أطعم ‌واحدا ستين يوما) لتجدد الحاجة.

وفى الشامية:(قوله: كما جاز لو أطعم) يشمل التمليك والإباحة، وعبر في الكنز بأعطى المختص بالتمليك. والحق أنه لا فرق على المذهب، وتمامه في البحر. وفيه: والكسوة في كفارة اليمين كالإطعام، حتى لو أعطى واحدا عشرة أثوب في عشرة أيام يجوز، ولو غدى واحدا عشرين يوما في كفارة اليمين أجزأه. اهـقلت: ومقتضاه أنه لو غداه مائة وعشرين يوما أجزأه عن كفارة الظهار. ثم رأيته صريحا قال في التتارخانية: وعن الحسن بن زياد عن أبي حنيفة إذا غدى واحدا مائة وعشرين يوما أجزأه (قوله: لتجدد الحاجة) لأن المقصود سد خلة المحتاج، والحاجة تتجدد بتجدد الأيام، فتكرر المسكين بتكرر الحاجة حكما فكان تعددا حكما.

فتاوى عالمگیری  (1/ 207)میں ہے:

وأما في كفارة الظهار، وكفارة الإفطار في شهر رمضان إذا عجز عن ‌الإعتاق ‌لفقره وعجز عن الصوم لكبره جاز له أن يطعم ستين مسكينا؛ لأن هذا صار بدلا عن الصيام بالنص كذا في شرح الطحاوي……..ولو أخر القضاء حتى صار شيخا فانيا أو كان النذر بصيام الأبد فعجز لذلك أو باشتغاله بالمعيشة لكون صناعته شاقة فله أن يفطر ويطعم ‌لكل ‌يوم ‌مسكينا على ما تقدم، وإن لم يقدر على ذلك لعسرته يستغفر الله إنه هو الغفور الرحيم، ولو لم يقدر لشدة الزمان كالحر فله أن يفطر وينتظر الشتاء فيقضي كذا في فتح القدير. هذا إذا لم يكن نذره بالأبد هكذا في الخلاصة.

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح(670) میں ہے:

فإن لم يستطع الصوم” لمرض أو كبر “أطعم ستين مسكينا” أو فقيرا ولا يشترط اجتماعهم والشرط أن “يغديهم ويعشيهم غداء وعشاء مشبعين” وهذا هو الأعدل لدفع حاجة اليوم بجملته” “أو” يغديهم “غداءين” من يومين “أو” يعشيهم “عشاءين” من ليلتين “أو ‌عشاء ‌وسحورا” بشرط أن يكون الذين أطعمهم ثانيا هم الذين أطعمهم أولا حتى لو غدى ستين ثم أطعم ستين غيرهم لم يجز حتى يعيد الإطعام لأحد الفريقين ولو أطعم فقيرا ستين يوما أجزأه لأنه بتجدد الحاجة بكل يوم يصير بمنزلة فقيرا آخر

احسن الفتاوی(4/449) میں ہے:

سوال:کفارہ یمین یا روزہ کے کفارہ میں اگر ایک مسکین کو کھانا کھلایا،تین دن یا ساٹھ دن تک یا ایک روپیہ یومیہ نقد دیتا رہا،تو کیا اس میں تتابع شرط ہے؟جس طرح روزے میں فمن لم يجد فصيام شهرين متتابعين کا حکم ہے۔

جواب:اس میں تتابع کی قید نہیں۔متفرق ایام میں کھلانے سے بھی کفارہ ادا ہو جائے گا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved