- فتوی نمبر: 31-02
- تاریخ: 14 اپریل 2025
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری > اجارہ علی المعاصی
استفتاء
میں ایک دکاندار ہوں جو کہ ہارڈ ویر پینٹ کا کاروبار کرتا ہوں ،پینٹ بنانے والی 98 فیصد کمپنیاں اپنے پینٹ کے ڈبے کے اندر ایک کوپن ڈال دیتی ہیں جس پر 100، 200، 500 وغیرہ لکھا ہوتا ہے۔ دراصل کمپنی یہ ٹوکن ڈبے کے اندر اس لیے ڈالتی ہے کہ جب کاریگر رنگ کے لیے ڈبہ کھولیں تو اسے ڈبے کی تہہ میں پڑا ہوا ٹوکن مل جائے اور آئندہ وہ لالچ میں رہے کہ فلاں کمپنی کے ڈبے سے مجھے اتنے روپے کا ٹوکن ملا تھا لہذا وہ سب کو یہی مشورہ دیتا ہے کہ اس کمپنی کا رنگ لگوائیں کیونکہ اس کو یہ کہنے کے لیے رشوت مل چکی ہوتی ہے، کاریگر یہ ٹوکن دکاندار کو دیکر اس سے نقد روپیہ لے لیتا ہے وہ دکاندار کمپنی کو یہ ٹوکن دے کر کمپنی سے پیسے لے لیتا ہے اب ہمیں کاروبار تو کرنا ہے کسٹمر آکر خود کمپنی کا نام لے کر کہتا ہے کہ مجھے فلاں کمپنی کا رنگ کا ڈبہ دیدیں ، احتیاط کے طور پر میں کسٹمر کو بتا دیتا ہوں کہ یہ جو ڈبہ آپ خرید رہے ہیں کمپنی نے اس کے اندر ٹوکن رکھا ہوا ہے اب یہ گاہک کی مرضی ہے کہ وہ ٹوکن خود نکالے یا کاریگر کو دے ، ہم تو ذمہ داری سے آزاد ہو گئے لیکن پھر بھی دو سوال ہیں:
1۔ جو لوگ ہم سے رنگ لے کر گئےہم نے ان کے ٹوکن تو واپس لے لیے لیکن جنہوں نے ہم سے نہیں خریدا وہ بھی ہمیں ٹوکن دیتے ہیں تو ہم وہ ٹوکن لے سکتے ہیں کیا اس طرح ٹوکنوں کا لینا جائز ہے ؟
2۔ دکاندار جو ٹوکن کسٹمر سے 200 روپے میں خریدتا ہے جب دکاندار یہ ٹوکن کمپنی کو دیتا ہے تو کمپنی اس کو بھی اس میں 10 فیصد کا اضافہ کر کے دیتی ہے یعنی گیلن سے نکلا 200 کا ٹوکن کاریگر نے ٹوکن دکاندار کو دے کر وہ 200 وصول کر لیا اب دکاندار نے یہ ٹوکن کمپنی کو دے کر کمپنی سے 220 وصول کر لیا کیا یہ حلال ہے؟ کمپنی کا کہنا یہ ہے کہ ہماری پالیسی ہے کہ ہم کاریگر کی مدد کرتے ہیں اور د کاندار کو خوش کرتے ہیں۔
وضاحت مطلوب ہے: آپ کی ٹوکن والے پینٹ بیچنے یا اس طرح کاریگروں سے ٹوکن لینے کی مجبوری کس حد تک ہے یعنی اگر ایسا نہ کریں تو کیاکاروبار چل سکتا ہے کتنا فرق پڑے گا؟
جواب وضاحت: زیادہ تر دکانیں دو قسم کی ہیں:
(1)وہ دکان جہاں صرف پینٹ ہی بیچا جاتا ہے۔
(2)وہ دکانیں جہاں پینٹ بھی بیچا جاتا ہے اور ہارڈویئر کا سامان بھی بیچا جاتا ہے۔
جو لوگ صرف پینٹ کا کاروبار کرتے ہیں وہ تو ٹوکن والے مال کے بغیر نہیں چل سکتے کیونکہ جیسے میں نے پہلے عرض کیا کہ اکا ،دکا کمپنی ہے جو ٹوکن کے بغیر مال بناتے ہیں تو اگر صرف وہ والا مال رکھ کے کوئی دکاندار چاہے کہ میں کاروبار کروں تو ایسا ممکن نہیں لہذا اسے جو بقیہ 98 فیصد کمپنیاں ہیں ان میں سے کسی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے اور ٹوکن والا مال بیچنا اس کے لیے ناگزیر ہےالبتہ جو دوسری قسم کے دکاندار ہیں جو ہارڈویئر بھی فروخت کرتے ہیں اور پینٹ بھی فروخت کرتے ہیں وہ اگر چاہیں تو پینٹ کا کاروبار بند کر دیں اور صرف ہارڈویئر کا کام کر لیں اس طرح وہ ٹوکن سے بچ سکتے ہیں ورنہ اس کے علاوہ نہیں، اگر اس طرح کریں گے تو ان کا کاروبار نصف ہو جائے گا یہ جو کچھ میں عرض کر چکا ہوں یہ آپ کی بات کا جواب تھا اب میں کچھ اور بھی اپ کے علم میں لانا چاہ رہا ہوں۔ ایک کمپنی والے سے بات ہوئی ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم گیلن کے اندر جو ٹوکن ڈالتے ہیں وہ اپنی طرف سے ڈالتے ہیں یہ پیسے ہم آپ سے نہیں لیتے یہ ٹوکن ہم ڈالتے ہی کاریگر کے لیے ہیں کہ اس کی مدد ہو اور ہماری ایڈورٹائزمنٹ ہو لہذا یہ آپ کے ذمے نہیں ہے اور اس ٹوکن کے پیسے ہم اپنی جیب سے اس کو دیتے ہیں اور اسی طرح جو دکاندار ٹوکن کے لین دین میں معاون ہوتا ہے اس کو بھی کچھ پیسے مل جاتے ہیں یہ بھی ہماری اپنی کمپنی کی مشہوری کے لیے اور ہمارے ڈیلر کو راغب کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اس بات کے بعد ایک مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ یہ کمپنی کی ایڈورٹائزنگ پالیسی ہے اور اس طرح یہ جائز اور حلال ہے اس میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس یہ میں نے آپ سے جو عرض کرنا تھا کر دیا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
پینٹ کے ڈبوں میں جو ٹوکن رکھا جاتا ہے وہ اصلاً کاریگر کے لیے رکھا جاتا ہے تاکہ کاریگر گاہک کے لیے ٹوکن والے ڈبے خریدنے کو ترجیح دے اور ٹوکن خود رکھ لے۔ کاریگر جب ڈبہ خریدتا ہے تو وہ عموماً گاہک کے لیے خریدتا ہے لہٰذا وہ اس وقت کمپنی کا کوئی ایسا کام نہیں کررہا ہوتا جس پر وہ کمپنی سے کمیشن /اجرت کا مطالبہ کرسکے اور نہ ہی وہ اس وقت کمپنی کی تشہیر/ ایڈروٹائزمنٹ کررہا ہوتا ہے لہٰذا یہ ٹوکن ایسی چیز کا عوض ہے جس کا عوض لینے کی شرعاً اجازت نہیں اور ایسے عوض کو شرع میں رشوت کہتے ہیں اس لیے چاہے ان ڈبوں کے ٹوکن ہوں جو آپ نے خود بیچے ہیں اور چاہے دوسرے ڈبوں کے جب کاریگر لینے آئے تو آپ کے لیے وہ لے کر پیسے واپس دینا جائز نہیں کیونکہ یہ رشوت کے کام میں تعاون ہے ۔
2۔ مذکورہ صورت میں کمپنی سے ملنے والے پیسے چونکہ رشوت کے کام میں تعاون کی وجہ سے ملتے ہیں اس لیے یہ پیسے لینا جائز نہیں۔
الاشباہ والنظائر (ص:86) میں ہے:
الضرورات تبيح المحظورات ومن ثم جاز اكل الميتة عند المخمصة واساغة اللقمة بالخمر والتلفظ بلكمة الكفر
امداد الفتاوی(370/3) میں ہے:
’’جو چیز کسی کو دی جاتی ہے اس کی دو حالتیں ہیں یاتو بعوض دیا جاتا ہے یا بلاعوض ،اور جو بعوض دیا جاتا ہے دو حال سے خالی نہیں یا تو ایسی شے کا عوض ہے جو شرعا متقوم وقابل عوض ہے اور یا ایسی شے کا عوض ہے جو شرعا متقوم وقابل عوض نہیں ،خواہ حقیقۃ جیسا عقود باطلہ میں ہوتا ہے یا حکما جیسا عقود فاسدہ میں ہوتا ہے ۔
اور جو بلاعوض دیا جاتا ہے وہ بھی دوحال سے خالی نہیں یا تو محض طیب خاطر اور آزادی سے دیا جاتا ہے یا تنگی خاطر وکراہت قلب سے دیا جاتا ہے خواہ وہ تنگی خاطراورکراہت قلب زیادہ ہو یا کم ہو۔
یہ کل چار قسمیں ہوئیں ۔
(۱)قسم اول جو متقوم شے کے عوض میں حاصل ہو ۔(۲)قسم دوم جو غیر متقوم شے کے عوض میں حاصل ہو (۳)قسم سوم جو بلاعوض بطیب خاطر حاصل ہو (۴)قسم چہارم جو بلاعوض بکراہت حاصل ہو ۔
قسم اول بوجہ اجرت یا ثمن ہونے اور قسم سوم بوجہ ہدیہ وعطیہ ہونے کے حلال ہے۔ اور قسم دوم بوجہ رشوت یا ربوا حقیقی یا حکمی ہونے اور قسم چہارم بوجہ ظلم یا جبر فی التبرع ہونے کے حرام ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved