• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

رنگ کی تہہ جمنے کی صورت میں وضو کا حکم

استفتاء

رنگ ساز جو رنگ کا کام کرتے ہیں اور کام کے دوران جسم پر رنگ بھی لگ جاتا ہےتو کیا ان کے لئے اس پر وضوء کرنا درست ہے؟

اگر جلد تک پانی پہنچانا ضروری ہے تو اس میں حرج واقع ہوگاپھر بھی جلد تک پانی پہنچانا ضروری ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عام حالات میں اعضاء وضو کے کسی حصے پر رنگ کی تہہ بن جانے کی صورت میں حکم یہ ہے کہ اس کو چھرائے بغیر وضو نہ ہوگا البتہ اگر آسانی سے رنگ کو چھرانے کے اسباب میسر نہ  ہوں اور دوسرے اسباب سے رنگ چھڑانے میں جلد کے خراب ہونے کا اندیشہ  ہو تو جہاں تک ممکن ہو اس کو چھڑا لیا جائے اور پھر بھی کچھ رہ جائے تو اس کے باوجود وضو مکمل کر لیا جائے۔

فتاوی ہندیہ (1/ 42)میں ہے:

وإن كانت شيئا لا يزول أثره إلا بمشقة بأن يحتاج في إزالته إلى شيء آخر سوى الماء كالصابون لا يكلف بإزالته. هكذا في التبيين . وكذا لا يكلف بالماء المغلي بالنار. هكذا في السراج الوهاج. وعلى هذا قالوا: لو صبغ ثوبه أو يده بصبغ أو حناء نجسين فغسل إلى أن صفا الماء يطهر مع قيام اللون. كذا في فتح القدير.                          

فتاوی ہندیہ (1/ 4)میں ہے:

‌وفي ‌الجامع ‌الصغير سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ قال كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لا يستطاع الامتناع عنه إلا بحرج والفتوى على الجواز.

مراقى الفلاح  (ص30)میں ہے:

وشرط صحته أي الوضوء ..زوال ما يمنع وصول الماء إلى ‌الجسد كشمع وشحم.

البحر الرائق (1/ 14)میں ہے:

‌ولو ‌لصق بأصل ظفره طين يابس وبقي قدر رأس إبرة من موضع الغسل لم يجز.

امداد لاحکام(1/345)میں ہے:

سوال:  اگرایک شخص کے بدن پرایسا زخم لگ گیا جس سے خون بند نہیں ہوتا ہے، اگرچونالگادیا گیا اوراس کے اثر سے خون بند ہوگیا، اور وہ جگہ ایسی ہے جس کادھوناوضو میں ضروری ہے تو چوناچھڑا کر وہ جگہ دھونا چاہیے یانہیں، اگرچوناایسا خشک ہوگیا ہے کہ چونے کے چھڑانے سے پھرخون نکلنے کااندیشہ ہے تو کیا کرے؟      اسی طرح اگرغسل کی ضرورت ہے اور ٹانگ میں کئی دن ہوئے ایک چوٹ لگ گئی تھی اور اس پر چونا لگادیاگیا تھا اور خون اس سے بندہوگیا تھا، اب وہ چونا ایسا خشک ہوگیا ہے کہ پانی کی تری سے کسی طرح نہیں چھوٹتا ہے، اگر چاقو وغیرہ سے چھڑایاجائے توخون نکلنا ضروری ہے ایسی صورت میں کیا کرے، صرف اوپراوپر سے پانی اس جگہ بہالینا درست ہے یا بہ تکلیف چوناچھڑا کرصاف کرکے خواہ خون ہی کیوں نہ نکلے پانی بہانا چاہیے اور اگر خون نکلنے لگے اور پھر بھی پورے طور پر چونا اس زخم سے نہ چھوٹے توکیا کروں؟

جواب:  چونا چھڑانا واجب ہے، بشرطیکہ چھڑانا ضرر نہ دے اور اگر ضرر دے تو اسی پرپانی بہالیاجائے، چاقو سے چھڑانے کی ضرورت نہیں، بلکہ تیل اور پانی وغیرہ سے بسہولت جتنا چھوٹ سکے اس کا چھڑانا واجب ہے، اور جو اس سے بھی نہ چھوٹے اس کا مضائقہ نہیں، قال فی نورالایضاح ولوضره غسل شقوق رجليه جازامرار الماء علی الدواء الذی وضعه فيها قال الطحطاوی ثم محل جواز امرار الماء علی الدواء اذا لم یزد علی رأس الشقاق فان زاد تعین غسل ماتحت الزائد کما فی ابن امیرحاج ومثله فی الدر لکن ینبغی ان یقید بعدم الضررکما لا یخفی افاده بعض الافاضل .یہی حکم غسل کا بھی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved