- فتوی نمبر: 4-43
- تاریخ: 26 مئی 2011
- عنوانات: مالی معاملات > امانت و ودیعت
استفتاء
میرے والد کا انتقال 2007ء کو ہوا۔ میرے والد صاحب نے ایک بیوہ، چار بیٹیاں، دو بیٹے اور ایک مکان جس کی مالیت تقریبا ساٹھ لاکھ ہے ورثہ میں چھوڑی ہے۔ والد صاحب نے مکان 1979ء میں تیار کیا۔ اس دوران انہوں نے اپنے بیٹے سے جو آرمی میں ملازم تھا دس ہزار روپے لیے۔، وہ رقم انہوں نے مکان پر لگائی۔ مکان بنانے کے بعدتقریبا 28 سال والد صاحب حیات رہے۔ بڑے بھائی نے والد صاحب کی زندگی میں ان سے اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔ والد صاحب کے انتقال کے تقریباً چار برس گذر جانے کے بعد بڑے بھائی نے مطالبہ کیا ہے کہ میں اس وقت اپنی تنخواہیں جوڑ کر جو رقم والد صاحب کو دی تھی۔ اگر آج کے حساب سے وہ تنخواہیں جوڑی جائیں تو اس وقت اس کی کل رقم تقریباً دو لاکھ ساٹھ ہزار بنتی ہے۔ جائیداد بیچنے کے بعد پہلے مجھے دو لاکھ ساٹھ ہزار ادا کیے جائیں اور بعد میں سب کا حصہ تقسیم کیا جائے ۔ کیا بھائی کا ایسا مطالبہ کرنا درست ہے؟
نوٹ: رقم دیتے وقت ہدیے یا قرض کا کوئی ذکرنہیں تھا اس کے بعد والد جب تک زندہ رہے تب تک انہوں نے کبھی مطالبہ نہیں کیا۔ اب وہ مانگتے ہیں۔ اور ہم باقی ورثاء ان کے اس مطالبے سے متفق ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پیسے ان کے کس شکل میں واپس کیے جائیں؟ دس ہزار یا دو لاکھ ساٹھ ہزار جیسا کہ ان کا مطالبہ ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ اول تو اس پر قسم کھائیں کہ انہوں نے دس ہزار روپے والد کو قرض کے طور پر دیے ، ہدیہ کے طور پر نہیں۔
2۔ اگر وہ اپنی بات پر قسم کھا لیتے ہیں تو اس کی واپسی کی دو صورتیں ہیں:
الف: مکان بیچے کا ارادہ ہوتو دس ہزار سے جو تعمیر ہوئی اس کی قیمت ان کو دی جائے۔
ب: دس ہزار کی جتنی چاندی آتی تھی وہ چاندی دی جائے۔ فقط واللہ تعالٰی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved