- فتوی نمبر: 8-192
- تاریخ: 18 جنوری 2016
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
*** اپنا مال ڈیلروں کو فروخت کرتی ہے پھر آگے عام گاہکوں کو وہ خود فروخت کرتے ہیں اس کو ایڈوانس پارٹی بنانے کی تیسری صورت یہ ہے کہ بعض اوقات کوئی پارٹی جس کی ماہانہ سیل مثلاً 5 لاکھ ہے وہ 20 لاکھ یعنی چار ماہ کے پیسے ایڈوانس دے دیتی ہے اور *** سے مطالبہ کرتی ہے کہ اسے خصوصی ڈسکاؤنٹ دیا جائے کیونکہ اس نے زیادہ ایڈوانس دیا ہے ۔اس صورت میں *** اس ڈیلر کے ساتھ خصوصی معاملہ (Special Deal)کرتی ہے اور اسے7% تک ڈسکاؤنٹ بھی دے دیتی ہے ۔تاہم اس صورت میں *** کو ایک مشکل پیش آتی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ یہ ڈیلرجس نے زیادہ ایڈوانس دیا اور اس کی وجہ سے اسے7%تک ڈسکاؤنٹ مل گیا تو اس کے ڈسکاؤنٹ کا تناسب بہت بڑھ جاتا ہے کیونکہ20%تو انوائس ڈسکاؤنٹ ہے جو سب کیلئے ہے ،اس کے علاوہ 7%ایڈوانس ادائیگی پر ڈسکاؤنٹ اور ماہانہ جتنی وہ سیل کرے گا (او ر عام طورپر و ہ زیادہ سیل کرتا ہے کیونکہ یہ عام طور پر بڑا ڈیلر ہوتا ہے )تو اس کا الگ ڈسکاؤنٹ ،تو اس طرح کل ملا کر اسے30%تک ڈسکاؤنٹ مل جاتا ہے ۔ا ب اگر وہ ڈیلر گاہک کو 25%ڈسکاؤنٹ پر بھی مال دے تو اس ڈیلر کو نفع ہے ۔لیکن دوسری طرف ایک چھوٹا ڈیلر ہے جس کی ماہانہ سیل کم ہوتی ہے اور اس کی ایڈوانس ادائیگی بھی نہ ہو تو اس ڈیلر کو ڈسکاؤنٹ کم ملتا ہے یعنی 20%انوائس ڈسکاؤنٹ کے علاوہ اسے اس کی ماہانہ سیل کی بنیاد پر مثلاً3%ڈسکاؤنٹ مل گیا تو اس چھوٹے ڈیلر کا کل ڈسکاؤنٹ 23%بنا ۔اب اگر وہ گاہک کو20 یا 21%ڈسکاؤنٹ پر مال دے تو گاہک اس سے خریدے گا نہیں کیونکہ گاہک کو بڑے ڈیلر سے 25%ڈسکاؤنٹ پر مال مل رہا ہوتا ہے اور اگر چھوٹا ڈیلر25%ڈسکاؤنٹ پر مال دے تو اسے واضح نقصان ہے ۔اس طرح چھوٹے ڈیلر کو مشکلات ہوتی ہیں ۔ایسی صورت میں *** بڑے ڈیلروں کو ہدایات دیتی ہیں کہ ایک خاص لمٹ سے زیادہ ڈسکاؤنٹ گاہک کو نہیں دینا تاکہ چھوٹے ڈیلروں کی بھی رعایت ہو جائے ۔چنانچہ *** ڈیلروں کا ریٹ چیک کرتی رہتی ہے یعنی *** اپنے ایک بندے کو فہرست دے کر دکان پر بھیج دیتی ہے وہ بندہ دکاندارسے باقاعدہ سودا (Bargaining) کرتا ہے پھر وہ فہرست *** کے پاس آ جاتی ہے۔ *** دیکھتی ہے اگر ڈیلر نے مقررہ حد سے زیادہ ڈسکاؤنٹ دیا ہو تو پھر *** اس ڈیلر کو سمجھاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بڑے ڈیلر ریٹ وائلیشن کرتے ہیں یعنی مقررہ حد سے زیادہ ڈسکاؤنٹ پر گاہک کو مال دے دیتے ہیں کیونکہ انہیں اس میں بھی نفع ہو رہا ہوتا ہے ،*** کی بھی مجبوری ہوتی ہے کہ *** بڑے ڈیلرکو چھوڑ نہیں سکتی کیونکہ بڑے ڈیلر کے پاس اور بہت سارے راستے ہوتے ہیں اگر پاپولر *** بڑے ڈیلر کا ڈسکاؤنٹ کم کر دے تو وہ کسی اور کمپنی کا مال خریدلے گا ۔اس لئے اس صورتحال کے باوجود *** بڑے ڈیلر کو مال دے رہی ہوتی ہے ۔*** دراصل اس بڑے ڈیلر کو زیادہ ڈسکاؤنٹ اس لئے دیتی ہے کہ چونکہ اس نے *** کو زیادہ فائدہ دیا ہے اس لئے اسے زیادہ ڈسکاؤنٹ دیا جائے تا کہ وہ اس ڈسکاؤنٹ کو اپنے پاس رکھے لیکن وہ اس کا غلط استعمال کرتا ہے اور اپنی سیل بڑھانے کی غرض سے وہ گاہکوں کو زیادہ ڈسکاؤنٹ دینا شروع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے *** کی پراڈکٹ کا ایک ریٹ برقرار نہیں رہتا ۔اس صورت میں *** چھوٹے ڈیلروں کے ساتھ یہ معاملہ کرتی ہے کہ چھوٹے ڈیلر کو پالیسی سے ہٹ کر اپنے صوابدید کے مطابق کچھ ڈسکاؤنٹ دے دیتی ہے مثلاً ایک فیصد ،دو فیصد ڈسکاؤنٹ چھوٹے ڈیلر کو مل جاتاہے ،لیکن یہ کوئی پالیسی نہیں ہے محض صوابدید پر موقوف ہے۔ مذکورہ بالا مسئلے کا شرعاً کیا حل ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ڈسکاؤنٹ زیادہ خریداری کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ زیادہ مقدار میں ایڈوانس رقم کی وجہ سے ہے اور مذکورہ صورت میں جو ایڈوانس رقم دی جا رہی ہے، اس کی حقیقت قرض کی ہے اور قرض کی وجہ سے ڈسکاؤنٹ سود کے زمرے میں آتا ہے۔ لہٰذا یہ زائد ڈسکاؤنٹ حاصل کرنا جائز نہیں۔ جب یہ ڈسکائونٹ ہی جائز نہیں تو اب ڈیلر کے لیے ریٹ وائیلیشن کرنے کا
موقعہ ہی پیدا نہ ہو گا۔
اس ڈسکاؤنٹ کے جائز ہونے کی متبادل صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اس معاملے کو بیع سلم بنایا جائے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ ڈیلر کو جو اشیاء مطلوب ہیں ان کی مقدار اور صفات وغیرہ کو پرچیز آرڈر میں صاف لکھ دے اور ان اشیاء کی فراہمی کی مدت بھی طے ہو جائے۔ اور کل رقم ایڈوانس میں ادا کر دی جائے اور اس ایڈوانس ادائیگی کی وجہ سے ڈیلر کو مطلوبہ ڈسکاؤنٹ دیدیا جائے۔ پھر بھی اگر ڈیلر ریٹ وائیلیشن کرے تو اس کے دو حل ہو سکتے ہیں:
(١) بڑے ڈیلروں کو ڈسٹری بیوٹر بنا دیں جن کو Retail پر کام کرنے کا اختیار نہ ہو۔ چھوٹے ڈیلروں کو یکساں ڈسکاؤنٹ دیا جائے۔
(٢) معاہدے میں ہی سیل ڈسکاؤنٹ کو ریٹ وائلیشن نہ کرنے کے ساتھ مشروط کر دیا جائے۔
(١) لما في رد المحتار: ( ٧/٤١٣) طبع: دار المعرفة، بیروت
مطلب: کل قرض جرّ نفعاً حرام
قوله: (كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر. وعن الخلاصة وفي الذخيرة: وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي: لا بأس به، ويأتي تمامه.
(٢) وفی کتاب الاختیار لتعلیل المختار (٢/٤٠) طبع: دار المعرفة، بیروت
كل ما أمكن ضبط صفته ومعرفة مقداره جاز السلم فيه، وما لا فلا.
وشرائطه: تسمية الجنس والنوع والوصف والأجل والقدر ومكان الإيفاء إن كان له حمل ومئونة، وقدر رأس المال في المكيل والموزون والمعدود، وقبض رأس المال قبل المفارقة.
(3) سنن الترمذی (باب ما ذکر فی الصلح بین الناس، رقم :1352) طبع: دارالاسلام
” المسلمون علی شروطهم ، إلا شرطاً حرم حلالاً أو أحل حراماً.”
(4) الدرالمختار: (٧/٥٨٢) طبع: درالمعرفة بیروت
لأن المواعید قد تکون لازمة لحاجة الناس و هو الصحیح کما في الکافي والخانیة.
وفي رد المحتارتحته: أن المواعيد باكتساء صور التعليق تكون لازمة، فإن قوله أنا أحج لا يلزم به شئ ولو علق وقال: إن دخلت الدار فأنا أحج يلزم الحج. ……………. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved